وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ ’’اور ایک اور چیز جو تمہیں بہت محبوب ہے.‘‘
یہ بڑا ہی عجیب اور قابلِ توجہ پیرایۂ کلام ہے. اللہ کے نزدیک تو اصل کامیابی وہ ہے جس کا ذکر ہو چکا‘ لیکن ایک اور چیز کا بھی وعدہ ہے‘ جو تمہیں بہت محبوب ہے‘ اور وہ ہے :

نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ 
’’اللہ کی طرف سے مدد اور جلد فتح یابی.‘‘

یعنی اللہ کی طرف سے مدد کا وعدہ بھی ہے اور اس فتح کا بھی جو زیادہ دُور نہیں ہے‘ اب یہ 
مرحلہ آیا چاہتا ہے‘ اللہ کے دین کا غلبہ ہوا چاہتا ہے. درحقیقت اس سورۂ مبارکہ کے زمانۂ نزول کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو اِن آیات کا مفہوم صحیح طور پر سامنے آتا ہے. محسوس ہوتا ہے کہ یہ آیات غزوۂ احزاب کے فوراً بعد نازل ہوئیں. غزوۂ احزاب رسول اللہ کی اس جدوجہد‘ کشمکش اور انقلابی دعوت میں ایک فیصلہ کن موڑ (turning point) کی حیثیت رکھتا ہے. اس کے بعد نظر آ رہا تھا کہ گویا اب صورتِ حال تبدیل ہو جانے والی ہے. (Tables were to be turned) اس کی طرف رسول اللہ نے غزوۂ احزاب کے فوراً بعد ان الفاظ میں ارشاد فرمایا تھا کہ : لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ (۱یعنی اے مسلمانو! اِس سال کے بعد اب قریش تم پرقطعا حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ اب تم ان پر جنگ مسلط کرو گے. یہ ان کی طرف سے آخری حملہ تھا‘ کفر کی کمر ٹوٹ چکی اور کفار حوصلہ ہار گئے‘ اب اقدام تمہاری طرف سے ہو گا. اسی کا گویا نقشہ ہے جو اس آیۂ مبارکہ کے الفاظ میں سامنے آ رہا ہے. اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کے وعدے کے ساتھ فرمایا جا رہا ہے :

وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ 
’’اور (اے نبی !) اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے!‘‘

نبی اکرم کے مذکورہ بالا فرمانِ مبارک اور اس آیۂ مبارکہ کے مابین ایک گہرا منطقی ربط معلوم ہوتا ہے اور آپ کا وہ قول اغلبا واللہ اعلم اسی آیۂ مبارکہ کے نزول کے بعد کی بشارت محسوس ہوتا ہے. یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! اہل ایمان کو بشارت دیجیے کہ اب وہ مرحلہ دُور نہیں ہے. اب اللہ کی مدد آیا چاہتی ہے اور فتح تمہارے قدم چومنے کو ہے. لیکن اس پورے معاملے کو 
’’ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. یعنی اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا ناکام! اس کے نزدیک تو اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے . بندۂ مؤمن کا فرض ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے اللہ کی راہ میں لگا دے اور اپنے تمام وسائل میدان (۱) تفسیر ابن کثیر ۶؍/۳۹۶ میں لا ڈالے.دنیا میں وہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام‘ اس سے اس کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا کوئی تعلق نہیں.

حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ یومِ اُحد ہی کو شہید ہو گئے اور انہوں نے دین کا غلبہ اپنی نگاہوں سے نہیں دیکھا. انہوں نے وہ دَور نہیں دیکھا جب اللہ کے دین کا جھنڈا لہرا رہا تھا‘ جب محمد رسول اللہ میدانِ عرفات میں یا وادیٔ منیٰ میں سوا لاکھ کے مجمع کو خطاب فرما رہے تھے. لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ناکام ہوئے. نعوذ باللّٰہ من ذٰلک! یہی وجہ ہے کہ یہاں ان دو ‘وعدوں کو علیحدہ علیحدہ گروپ کیا گیا ہے. پہلا وعدہ خطاؤں کی بخشش اور داخلہ ٔ جنت کا ہے‘ جسے ’’اصل کامیابی‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ اور دوسرا وعدہ اور خوشخبری ایک ایسی چیز کے بارے میں ہے جس کے لیے فرمایا گیا کہ ’’جو تمہیں بہت پسند ہے‘‘. انسان بربنائے طبع بشری اپنی جدوجہد کے نتائج کو دیکھنا چاہتا ہے‘ اپنی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش انسان میں فطری طور پر ہوتی ہے. یہاں اس کی طرف اشارہ فرمادیاگیا.