اب ہم اس سورۂ مبارکہ کی آخری آیت کا مطالعہ کرتے ہیں جو ایک طویل آیت ہے. اور منطقی اعتبار سے یہ اس سلسلۂ مضمون کا ایک انتہائی اہم اور بلند ترین مقام ہے جو گزشتہ آیات میں چلا آ رہا ہے. فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ
’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بنو…‘‘

اس کا تعلق اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت کے ساتھ جوڑیئے. وہاں فرمایا گیا تھا: 
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے اور وہ زبردست ہے‘ توانا ہے‘ غالب ہے‘ کمالِ حکمت والا ہے. اس کی حکومت اس پوری کائنات پر چھائی ہوئی ہے‘ اسے کسی کی نصرت کی کوئی احتیاج نہیں. وہ (معاذ اللہ) ضعیف نہیں ہے کہ اسے کسی کی مدد کی احتیاج ہو. بایں ہمہ اگر بندۂ مؤمن اس کے دین کے غلبے کے لیے سعی کر رہا ہو‘ اس کے دین کی سربلندی کے لیے جان اور مال کھپا رہا ہو‘ اس کے رسول کے مشن کی تکمیل کے لیے جسم و جان کی توانائیوں کو صرف کر رہا ہو‘ اپنے مال و اسباب اور وسائل و ذرائع کو اس کی راہ میں خرچ کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی اس حد تک حوصلہ افزائی فرماتے ہیں کہ اس کی اس جدوجہد کو اپنی نصرت سے تعبیر فرماتے ہیں. اور بند ے کے لیے اس سے اونچا مقام اور کوئی نہیں ہے کہ مخلوق ہو کر خالق کا مددگار قرار پائے‘ عبد ہوتے ہوئے معبود کا مددگار قرار پائے‘ اور معبود اپنے بندوں سے کہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ
’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بنو!‘‘

اس کے لیے اب یہاں تاریخ سے شواہد لائے گئے ہیں. بنی اسرائیل کی تاریخ جہاں بہت سی پستیوں کی امین ہے‘ وہاں اس میں رفعتیں بھی ہیں. حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں نے ؏ ’’ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما‘‘کے مصداق حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد اُن کے پیغام کی نشر و اشاعت میں جس تندہی کے ساتھ محنتیں کی ہیں‘ جو کوششیں کی ہیں‘ جس طرح کے مصائب جھیلے ہیں‘ جس طرح کی صعوبتیں اور شدائد برداشت کیے ہیں‘ وہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی کا اس پہلو سے ایک بڑا درخشاں باب ہے. چنانچہ فرمایا گیا: 

کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ 

’’جیسے کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف؟‘‘
چونکہ یہ کام اللہ کا ہے‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی نشرو اشاعت مقصود ہے‘ لہذا اسے ’’اللہ کی طرف نصرت‘‘ سے تعبیر فرمایا. بعثت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مقصد اور اس کی غرض و غایت کو سامنے رکھیے تو کہا جائے گا کہ کون ہے جو اللہ کے دین کے غلبے اور اس کی سربلندی کی جدوجہد میں میرا مددگار ہو‘ میرا دست و بازو بنے‘ میرا ممد و معاون ہو‘ اس راہ میں میرا ساتھ دے؟
آپ نے دیکھا کہ کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ اور مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ میں نصرت کی دونوں نسبتیں آ گئی ہیں‘ ایک نسبت اللہ کی طرف اور دوسری رسول کی طرف. یعنی اللہ کی نصرت بایں معنی کہ دین اللہ کا ہے ‘اور رسولؐ کی نصرت اس حوالے سے کہ اللہ کے دین کو غالب کرنااصلا ً رسول کا فرضِ منصبی ہے. یہ دونوں نسبتیں ہمارے منتخب نصاب کے آخری مقام سورۃ الحدید میں اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہیں : وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ (آیت ۲۵کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کو ن ہیں اس کے وہ جان نثار اور وفادار بندے جو غیب میں رہتے ہوئے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں. تو یہ نصرتِ خداوندی اور نصرتِ رُسل ہی گویا جہاد فی سبیل اللہ کی اصل ماہیت‘ اس کی اصل حقیقت‘ اس کا لب لباب اور اس کا خلاصہ ہے. آگے ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ ‘‘ کے جواب میں حواریین مسیحؑ کا جواب نقل ہوا ہے:

قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ 
’’حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں مددگار اللہ کے!‘‘

فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ 
’’پھر بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا (حضرت مسح علیہ السلام پر)اور ایک گروہ کفر پر اڑا رہا.‘‘