فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ ﴿٪۱۴﴾
’’تو ہم نے تائید فرمائی ان کی جو ایمان لائے تھے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں‘ اور (بالآخر) وہی غالب ہوئے!‘‘
یہاں فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ میں وہی لفظ ’’اظہار‘‘ اسم فاعل کی شکل میں آیا ہے جو لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ میں بطورِ فعل آیا تھا. اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا دنیا میں غالب ہوئے اور اللہ کے رسول کا انکار کرنے والے یہودی مغلوب ہوئے . اور تاریخ میں پھر وہ اَدوار بھی آئے کہ جن میں ان کے لیے اپنا کوئی تشخص برقرار رکھنا بغیر اس کے ممکن نہیں رہا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیواؤں کی پناہ میں آئیں اور ان کے دامن میں اپنے آپ کوچھپائیں. تاریخ انسانی کے دوران وقفے وقفے کے بعد اُن پر عذابِ خداوندی کے کوڑے بھی برستے رہے. کبھی بخت نصر کے حملے کی صورت میں ان پر عذابِ الٰہی آیا اور کبھی ٹائٹس رومی کی صورت میں ان پر قہر ِ خداوندی نازل ہوا. بیسویں صدی میں ہٹلر کے ہاتھوں ان پر قیامت ٹوٹی. لیکن بہرحال تاریخ کی یہ انمٹ شہادت ہے کہ وہ اُس وقت سے ہمیشہ مغلوب ہی رہے ہیں. اس وقت بظاہر دنیا میں ان کی کچھ چلت پھرت اور کچھ حیثیت و مقام نظر آتا ہے‘لیکن وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیواؤں کے طفیل اور اُن کے سہارے پر ہے. اور اگر یہ آج کچھ ناچ رہے ہیں تو انہی کے کھونٹے پر جو اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحیح معنوں میں متبعین نہیں ہیں‘ لیکن بہرحال ان کے نام لیوا ہیں.
یہاں یہ سورۂ مبارکہ ختم ہوتی ہے. اب چند جملوں میں اس کا لب لباب ذہن نشین کر لیجیے . سورۂ مبارکہ کا مرکزی مضمون ہے محمد ٌرسول اللہﷺ کا مقصد بعثت اور اس کی تکمیلی اور امتیازی شان‘ یعنی وہ دین حق جو آپؐ دے کر بھیجے گئے اسے پورے نظامِ زندگی پر بالفعل قائم کرنا‘ غالب کرنا‘ رائج کرنا‘ نافذ کرنا. اور وہ جو ایمان رکھتے ہوں اللہ پر اور ایمان رکھتے ہوں محمدرسول اللہﷺ پر‘ ان کا فرضِ منصبی ہے اس مقصد کے لیے جان اور ما ل کے ساتھ جہاد کرنا. وہ اگر یہ کرتے ہیں تو ان کے لیے سب کچھ ہے‘ مغفرت بھی ہے اور ہمیشہ ساتھ رہنے والے رہائشی باغات میں ان کو بہترین ٹھکانے بھی میسر آ جائیں گے. ان پر اللہ کی طرف سے انعام و اکرام اور اعزاز کی بارش ہوگی. پھرمزید یہ کہ اس دنیا میں بھی نصرت اور فتح کے وعدے ہیں. اور مزید برآں ان کی اس طرح قدر افزائی ہو گی اور وہ بلند مقام انہیں ملے گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مددگار قرار پائیں گے. اور اگر نہیں کرتے تو عذابِ الیم سے چھٹکارا پانے کی امید بھی موہوم ہے‘ بلکہ یہ اللہ کے غضب کو بھڑکا دینے والی بات ہے کہ انسان زبان سے دعوائے ایمان کرے‘ اللہ اور اس کے رسول کو ماننے کا اقرار کرے اور بالفعل اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انکار کر دے!!
oo وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمینoo