غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ تاریخ کے دو بڑے بڑے انقلاب جن کا بہت شہرہ ہے‘ محض جزوی انقلابات تھے. انقلابِ فرانس ہو یا انقلابِ روس‘ ان دونوں نے زندگی کے رخ میں کوئی ہمہ گیر تبدیلی برپا نہیں کی. انقلابِ فرانس میں لوگوں کے افکار اور عقائد نہیں بدلے‘ ان کا طرزِ معاشرت تبدیل نہیں ہوا‘صرف نظامِ حکومت کا ڈھانچہ تبدیل ہوا. یعنی شخصی حکومت کا دَور ختم ہوا اور جمہوریت کا آغاز ہوا. اسی طرح انقلابِ روس (Baolshewik Revolution) اگرچہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا‘ بلکہ اگر اسے انقلابوں کی ماں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس کی کوکھ سے انقلابوں کی ایک پوری کھیپ برآمد ہوئی ہے‘ بایں ہمہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے ذریعے بھی ایک جزوی تبدیلی ہی آ سکی‘ یعنی محض نظامِ معیشت کا ڈھانچہ تبدیل ہوا. اور ویسے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک بڑا انقلابی فکر یعنی جدلی مادیت (Dialectical Materialism) اس انقلاب کی پشت پر تھا لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو مادیت پہلے سے موجود تھی‘ اس نے صرف ایک قدم آگے بڑھایا اور جدلی مادیت کی شکل اختیار کر لی‘ اسے آپ ’’مادیت‘‘ سے ’’جدلی مادیت‘‘ تک ایک ارتقائی عمل تو کہہ سکتے ہیں‘ انقلابی عمل نہیں کہہ سکتے. گویا کہ وہاں بھی اصل تبدیلی زندگی کے محض ایک گوشے یعنی نظامِ معیشت میں واقع ہوئی کہ کوشش کی گئی کہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے کر حصہ رسدی تمام افراد تک کسی قدر منصفانہ انداز میں پہنچا دیا جائے. اس سے قطع نظر کہ معاشی ڈھانچے میں اس تبدیلی کے ضمن میں انسان کو کیا قیمت ادا کرنی پڑی اور اس کا کیا ردّعمل سامنے آ رہا ہے‘ فی الوقت صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ دنیا کے یہ تمام انقلابات جزوی تھے‘ جبکہ نبی اکرم کا لایا ہوا انقلاب ہمہ گیر تھا. اس انقلاب میں لوگو ں کے عقائد بدلے ‘ افکار بدلے‘ نظریات بدلے‘ زندگی کی قدریں بدلیں‘ نقطۂ نظر تبدیل ہو گیا‘ سوچ کا رُخ بدل گیا‘ طرزِ بود و باش بدل گئی‘ معیشت کا انداز بدل گیا‘ سیاست کے طور و اطوار بدل گئے‘ یوں کہیے کہ زمین بدل گئی‘ آسمان بدل گیا. بلکہ یہاں یہ تلاش کرنا پڑتا ہے کہ کیا چیز نہیں بدلی!اس پہلو سے کسی دوسرے انقلاب کو انقلابِ محمدیؐ سے کوئی دُور کی نسبت بھی نہیں ہو سکتی! چنانچہ اس پہلو سے ہمارے اس دور کے برعظیم پاک و ہند کے ایک بہت بڑے انقلابی ایم این رائے نے نبی اکرم کے بارے میں اپنی مشہور کتاب ’’Historical Role of Islam‘‘ میں اگریہ کہا کہ محمد بہت بڑے انقلابی راہنما تھے تو واقعہ یہ ہے کہ غلط نہیں کہا.

دوسری طرف یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے تمام اہم انقلابات کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو ایک بات قریباً ہر جگہ مشترک نظر آئے گی کہ انقلابی فکر تخلیق کرنے والے یا پیش کرنے والے کچھ اور لوگ تھے اور اس انقلاب کو عملاً برپا کرنے کا معاملہ کچھ اور لوگوں کا ہاتھوں ہوا. انقلابِ فرانس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ والٹیر‘ روسو اور اُن جیسے نامعلوم کتنے اہل قلم تھے جنہوں نے وہ فکر دیا کہ جس کی بنیاد پر اس انقلابی عمل کا آغاز ہوا. لیکن یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ انقلابِ فرانس کے عملاً برپا ہونے اور اس کی عملی رہنمائی میں ان مفکرین کو کوئی دخل حاصل نہیں تھا. وہ انقلاب عملاً کچھ اوباش قسم کے لوگوں کی رہنمائی میں برپا ہوا اور واقعہ یہ ہے کہ وہ بڑا ہی خونی انقلاب تھا. اسی طرح کا معاملہ انقلابِ روس 
(Baolshewik Revolution) کا بھی تھا. اس انقلاب کے لیے انقلابی فکر دینے والا کارل مارکس جو جرمنی کا رہنے والا تھا‘ خود اپنی زندگی میں کسی ایک گاؤں میں بھی انقلاب برپا نہیں کر سکا. سوچیے‘ یہاں ایک بالکل ہی دور دراز کے ملک میں ایک فعال شخصیت لینن کے ہاتھوں وہ انقلاب برپا ہوا جس نے کارل مارکس کے دیے ہوئے فکر و فلسفہ کو دنیا میں ایک انقلاب کی عملی شکل میں ڈھالا. معلوم ہوا کہ انقلابی فکر دینے والے بالعموم کچھ اور لوگ ہوتے ہیں اور انقلاب برپا کرنے والے کوئی اور!

اس پس منظر میں دیکھئے تو نبی اکرم کا معاملہ منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے. ایک فردِ واحد سے دعوت کا آغاز ہوا اور کل تیئس برس میں یعنی ایک 
’’life span‘‘ کے اندر اندر انقلاب کی تکمیل ہو گئی . بلکہ یہ تیئس برس بھی شمسی نہیں قمری ہیں. اس پہلو سے دیکھا جائے تو ہمارے حساب سے وہ بمشکل بائیس برس بنتے ہیں. کل بائیس برس میں ایک شخص فردِ واحد کی حیثیت سے دعوت کا آغاز کرتا ہے اور پھر وہ دعوتی و انقلابی جدوجہد ان تمام مراحل کو طے کر کے جو کسی بھی انقلاب کو درپیش ہوتے ہیں‘ نہایت خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے. اس میں آپ کو تمسخر و استہزاء کے ابتدائی مرحلے سے گزرنا پڑا‘ پھر وہ شدید تشدّد (persecution) کا دور بھی آیا جس میں اہل ایمان پر وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے‘ پھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ وطن کو چھوڑنا پڑا‘ مکے کی سرزمین کو خیرباد کہہ کر مدینہ منورہ کا رُخ اختیار کرنا پڑا‘ پھر اقدام کا مرحلہ بھی آیا اور جہاد و قتال کے مراحل سے بھی گزرنا پڑے. اور اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے تمام مراحل سے گزر کر کل تئیس برس کی مدت میں وہ انقلاب اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے. اس کا ایک نتیجہ جس کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہ ساری بات گوش گزار کی گئی‘ یہ نکلا کہ نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ میں اس انقلابی عمل کے مختلف مراحل بہت نمایاں ہو گئے. بلکہ آپؐ کے اس انقلابی عمل کا tempo اتنا شدید ہے اور وہ انسان کی توجہ کو اس درجے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے کہ اس انقلابی عمل کی پشت پر کارفرما اساسی طریق کار بالعموم نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے. حالانکہ وہ اساسی طریق کار یا منہجِ عمل اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس انقلابی جدوجہد‘ اس تصادم اور اس تمام تر جہاد و قتال کے لیے وہ افراد کس طور سے حاصل ہوئے کہ جن میں ہر ایک عزم و ہمت اور استقامت کی چٹان ثابت ہوا. ان افراد کے فکر و نظر میں انقلاب کیونکر برپا ہوا اور پھر ان کی تربیت کا معاملہ کس نہج پر ہوا! گویا غور طلب بات یہ ہے کہ اس انقلابی عمل کی تہہ میں کارفرما وہ کون سا عمل تھا کہ جس کے ذریعے انفرادی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا. جس طرح کسی پہاڑی ندی کا زور و شور اور اس کی موجوں کا تلاطم انسان کو اس طرح اپنے اندر جذب کر لیتا ہے کہ اس کی گہرائی کی طرف توجہ نہیں ہوتی‘ اسی طرح نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ کا یہ پہلو یعنی انقلابی کشمکش اور اس میں تصادم کے مختلف مراحل کسی بھی سیرت کے سننے یا پڑھنے والے کو اس درجے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں کہ اس جدوجہد کے پس پشت کارفرما اساسی منہاج اور بنیادی طریق کار نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور ساری توجہ اسی ایک پہلو پر مرتکز ہو جاتی ہے.