سورۃ الجمعہ میں درحقیقت نبی اکرم کے اسی اساسی منہاج اور بنیادی طریق کار کو واضح کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ افراد تیار کیے گئے کہ جو اس انقلابی جدوجہد میں نبی اکرم کے دوست و بازو بنے اور جن کے اندر کا انقلاب بیرونی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا. اس مضمون کی اہمیت کو اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر کے حوالے سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے‘ بڑا پیارا شعر ہے ؎

خدا کے کام دیکھو ‘ بعد کیا ہے اور کیا پہلے!
نظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے!

کہ اگرچہ نبی اکرم کی سیرت طیبہ میں غزوۂ بدر‘ غزوۂ اُحد‘ غزوۂ احزاب‘ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ بڑے اہم نشاناتِ راہ (land marks) شمار ہوتے ہیں لیکن اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ وہ بنیادی process اور طریق کار کون سا تھا کہ جس سے انقلاب کی داغ بیل پڑی‘ جس سے افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا‘ وہ افراد کہ جنہوں نے اپنی سیرت و کردار سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا نقشہ وہ ہے جو سورۃ الاحزاب میں بایں طور آیا ہے کہ : 

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ
’’اہل ایمان میں ایسے جوان مرد موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا.‘‘

فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳
’’تو ان میں سے وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے (اور گردنیں کٹوا کر سبکدوش ہو چکے‘ سرخرو ہو چکے) اور باقی ابھی منتظر ہیں (کہ کب ہماری باری آئے اور ہم بھی سبکدوش ہو جائیں اور) انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی.‘‘

وہ مردانِ کار کس 
process سے اور کس طور سے تیار ہوئے تھے‘ یہ ہے درحقیقت سورۃ الجمعہ کا مرکزی مضمون.