یہ ہے وہ آیۂ مبارکہ جس کے بارے میں عرض کیا گیا ہے کہ یہ مضمون کے اعتبار سے اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت ہے. اس میں چار اصطلاحات وارد ہوئی ہیں: (i تلاوتِ آیات‘ (ii تزکیہ‘(iiiتعلیم کتاب‘ اور (ivتعلیمِ حکمت.ان چاروں پر آپ غور کریں گے تو پہلی بات نمایاں ہو کر آپ کے سامنے یہ آئے گی کہ ان چار میں سے کم از کم دو کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان سے مراد سوائے قرآن کے اور کچھ نہیں! ظاہر بات ہے کہ تلاوتِ آیات سے مراد قرآن مجید کی آیات ہی کا پڑھ کر سنانا ہے. اسی طرح تعلیم کتاب سے مراد بھی قرآن حکیم ہی کی تعلیم ہے. البتہ دو اصطلاحات سے کتاب اللہ کے سوا کوئی اور شے مراد ہے. چنانچہ عمل تزکیہ کے بارے میں ایک گمان یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا اپنا علیحدہ تشخص ہے. اسی طرح لفظ ’’حکمت‘‘ کے بارے میں بھی ہمارے ہاں ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا اور بعض بڑے بڑے ائمہ دین کی طرف سے‘ جن میں امام شافعی رحمہ اللہ علیہ بھی شامل ہیں‘ یہ خیال سامنے آیا ہے کہ اس سے مراد سنّتِ رسولؐ ہے. لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے تمام تر احترام کے باوصف یہاں ہمیں یہ غور کرنا ہو گا کہ ان چاروں اصطلاحات کا باہمی ربط و تعلق کیا ہے اور خود قرآن حکیم کے دوسرے مقامات سے ان کا کیا مفہوم متعین ہوتا ہے. جس طرح سورۃ العصر کے بارے میں عرض کیا گیا کہ شرائط نجات کے بیان میں وہ چاروں چیزیں جو وہاں بیان ہوئی ہیں ان میں باہم بڑا گہرا معنوی ربط موجود ہے. ایمانِ حقیقی کا لازمی نتیجہ عمل صالح ہے. اور عمل صالح اگر پختگی کو پہنچے گا تو اس سے تواصی بالحق کے برگ و بار لازماً ظاہر ہو کر رہیں گے. اسی طرح اگر صحیح معنی میں حق کی دعوت دی جائے تو یقینا صبر کا مرحلہ آ کر رہے گا‘ تکالیف و مشکلات آئیں گی اور انہیں جھیلنا ہو گا. تو جس طرح سورۃ العصر کی ان چار اصطلاحات میں باہم گہرا ربط ہے‘ اسی طرح سورۃ الجمعہ کی متذکرہ بالا چار اصطلاحات بھی باہم مربوط ہیں.

تزکیے کے بارے میں تفصیلی گفتگو تو بعد میں ہو گی‘ سردست اتنی بات نوٹ کر لیجیے کہ قرآن مجید مدعی ہے کہ تزکیہ کا اصل ذریعہ وہ خود ہے. سورۂ یونس میں صاف الفاظ میں فرمادیا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ یعنی ’’اے لوگو! تمہار ے پاس آ چکی ہے تمہارے ربّ کی طرف سے ایک موعظت‘ ایک نصیحت جو شفا ہے تمہارے سینوں کے امراض کے لیے‘‘. یہ قرآن تمہارے تمام باطنی اور روحانی امراض کا مداوا بن کر نازل ہوا ہے. تزکیۂ نفس یا تزکیۂ باطن کا اصل ذریعہ خود قرآن ہے. اور جہاں تک ’’تعلیم حکمت‘‘ کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں ہمارے اس منتخب نصاب میں سورۂ بنی اسرائیل میں وہ آیت وارد ہو چکی ہے جو اس حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے کہ حکمت کا اصل سرچشمہ بھی خود قرآن ہی ہے. ارشاد ہوتا ہے : ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ ’’یہ ہے وہ چیز کہ (اے محمد ) آپ پر وحی کی ہے آپ کے ربّ نے از قسم حکمت!‘‘ تو معلوم ہوا کہ یہ چاروں اصطلاحات یعنی تلاوتِ آیات‘ تزکیہ‘ تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت درحقیقت قرآن مجید ہی کے گرد گھوم رہے ہیں اور ان سب کا محور و مرکز قرآن مجید ہی ہے. گویا بالفاظِ دیگر محمد رسول اللہ کا آلۂ انقلاب یہی قرآن مجید ہے‘ جس کے بارے میں مولانا حالی نے بڑے پیارے انداز میں کہا تھا ؎

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ آیا 

غور کیجیے‘ محمد رسول اللہ نے افراد کی زندگیوں میں وہ عظیم انقلاب کیسے برپا فرمایا ! ان کے فکر اور ان کے کردار میں جو ہمہ گیر تبدیلی آئی وہ کیونکر آئی؟ اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس تمام تبدیلی کی بنیاد اور اساس خود قرآن حکیم ہے. تو آیئے کہ ہم ان چار اصطلاحات پر اپنی توجہات کو مرکوز کریں!