نبی کریم کا پہلا کام یا آپ کے فرائض چہارگانہ میں سے پہلا فریضہ ہے تلاوتِ آیات‘ جس کے لیے یہاں الفاظ لائے گئے: 
یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ ’’تَلَا‘ یَتْلُوْ‘‘ اگر کسی صلے کے آئے تو اس کے معنی خود پڑھنے کے ہوتے ہیں اور جب اس پر ’’عَلٰی‘‘ کا اضافہ ہو جائے‘ جیسے ’’تَـلَا عَلَیْہِ‘‘ تو اس کے معنی ہوں گے کسی کو پڑھ کر سنانا. کارِ نبوت یا کارِ رسالت کا سر آغاز یہی تلاوتِ آیات ہے. دعوت کا آغاز تلاوتِ آیات ہی سے ہوتا ہے.

لفظ آیات پر اس سے قبل ہمارے ان اسباق میں گفتگو ہو چکی ہے. غور کیجیے کہ آیات یا نشانیوں کا حاصل کیا ہے! ہم پڑھ چکے ہیں کہ ان آیات سے اصل مقصود ذہن کو اللہ کی جانب متوجہ کرنا ہے. اللہ کی یاد دلوں میں تازہ ہو جائے‘ اللہ کی معرفت اور اس پر ایمان قلوب میں اُجاگر ہو جائے. یہی آیات ہیں کہ جو پھر انسان کو بعث بعد الموت کی طرف اور جزا و سزا کی طرف متوجہ کرتی ہیں. گویا ہر اعتبار سے اوّلین کام تلاوتِ آیات ہی بنتا ہے. قرآن مجید کی حکمت ِ نزولی سے ہمیں اس کی مزید تائید ملتی ہے کہ قرآن مجید میں مکی سورتوں میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان سب کا بنیادی موضوع ایک ہی ہے اور وہ ہے توحید‘ کہ اصل مقصود یہ ہے کہ ایمان باللہ دلوں میں جاگزیں ہو جائے‘ ہستی باریٔ تعالیٰ کا یقین راسخ ہو جائے‘ اس کی صفاتِ کمال کا علم حاصل ہو جائے ‘ اس کی توحید پر دل ٹھک جائے‘ جزا و سزا‘ بعث بعد الموت‘ حشر نشر اورجنت و دوزخ پر ایک یقین محکم پیدا ہو جائے‘ نبوت و رسالت اور انزالِ وحی و کتب کے ضمن میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے. یہ ہے اصل اہمیت کی چیز‘ یہ ہے کارِ رسالت کانقطۂ آغاز!

قرآن حکیم کی آیات نے آ کر لوگوں کے ذہنوں سے تمام ملحدانہ خیالات‘مشرکانہ عقائد اور اس کائنات اور خود اپنے بارے میں انسان کے قائم کردہ تمام غلط نظریات کو دھو دیا اور صاف کر دیا. اس تطہیر ذہنی و فکری کا اصل ذریعہ ہے تلاوتِ آیات!

ایک فرد کے معاملے کو ذہن میں رکھ کر آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں. اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایک فرد میں اسلامی انقلاب آ جائے تو ظاہر بات ہے کہ آپ کو سب سے پہلے اس کی سوچ اور اس کے نقطۂ نظر کا جائزہ لینا ہو گا اور اس کے فکر کی اصلاح سے کام کا آغاز کرنا ہو گا. اگر آپ چھوٹتے ہی اسے کچھ شعائر اسلامی کا احترام کرنے یا نماز روزے کی تلقین کریں گے تو یہ ایک غیر حکیمانہ ترتیب ہو گی. آپ کو سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ہو گا کہ اُس شخص کا فکر کیا ہے‘ اس کی سوچ کیا ہے‘ آیا وہ اس کائنات کو محض ایک حادثہ سمجھتا ہے اور اس کا یہ خیال ہے کہ یہ نظام از خود چل رہا ہے یا وہ مانتا ہے کہ اس کا کوئی خالق‘ مالک اور مدبر بھی ہے!! اسی طرح یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ اسی دُنیوی زندگی کا کل زندگی سمجھتا ہے یا حیاتِ بعد موت کا کوئی تصور اس کے ذہن میں موجود ہے!اور آیا وہ صرف عقل اور حواس ہی کو اپنے لیے حصولِ علم کا ذریعہ اور ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ سمجھتا ہے یا یہ کہ وہ کسی ماوراء عقل یا ماوراء حواس ذریعہ علم (source of knowledge) کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہے؟ اگر آپ کی اس انقلابی کوشش کا آغاز یہاں سے نہیں ہو گا تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی کوششیں بار آور نہیں ہوں گی. اگر ذہن پر مادہ پرستی‘ الحاد اور مختلف مشرکانہ اوہام کا تسلط ہے تو سب سے پہلے ان کی تطہیر لازم ٹھہرے گی.

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم نے جس ماحول میں وہ انقلاب برپا فرمایا اس میں تلاوتِ آیات کے ذریعے لوگوں کی ذہنی اور فکری تطہیر کے عمل کو مقدم رکھا. 
مادہ پرستی‘ الحاد اور مشرکانہ اوہام کے زہر سے قلوب و اذہان کو پاک کر کے مثبت طور پر دلوں میں ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرت اور ایمان بالوحی اور رسالت کی بنیادیں قائم کیں. یہ ہے درحقیقت انقلابِ محمد کا نقطہ آغاز. یہاں سے بات آگے چلتی ہے. چنانچہ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ دعوت و تبلیغ کے بارے میں جتنی اصطلاحات بھی وارد ہوئی ہیں ان سب کا مبنی‘ ان سب کا مرکز اور محور قرآن مجید خود اپنے آپ کو قرار دیتا ہے. دعوت و تبلیغ کے ضمن میں ’’انذار و تبشیر‘‘ انبیاء کرام کا ایک بنیادی فریضہ سمجھا جاتا ہے. چنانچہ انذار کے بارے میں فرمایا گیا: وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ (الانعام:۱۹’’مجھ پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے ذریعے سے خبردار کر دوں‘‘. معلوم ہوا کہ انذار کا اصل ذریعہ خود قرآن حکیم ہے. اسی طرح تبشیر کے بارے میں فرمایا: فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ (مریم) ’’(اے نبیؐ !) ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان پر آسان کر دیا ہے‘ تاکہ آپ اسی کے ذریعے اہل تقویٰ کو بشارت دیجیے اور اسی کے ذریعے آپ انذار فرمایئے اور خبردار کیجیے جھگڑالو قوم کو‘‘. گویا انذار ہو یا تبشیر دونوں کا ذریعہ اور مرکز و محور خود قرآن ہے.

اسی طرح انبیاء کا ایک فریضہ ’’ تذکیر‘‘ بھی ہے یعنی یاد دہانی کرانا‘ نصیحت کرنا. سورۂ ق کی آخری آیت میں اس کے بارے میں فرمایا گیا: فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ ’’ تذکیر فرمایئے اس قرآن کے ذریعے سے ہر اُس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘. اسی طرح فرائض نبوت و رسالت کی تعبیر کے ضمن میں ایک اہم اصطلاح ’’تبلیغ‘‘ کی ہے. سورۃ المائدۃ میں ارشادہوتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ ’’(اے نبیؐ ) پہنچا دیجیے تبلیغ فرمایے اُس کی جو نازل کیا گیا آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘. الغرض دعوت و تبلیغ کے ضمن میں قرآن حکیم کی جو بھی بنیادی اصطلاحات ہیں مثلاً انذار و تبشیر اور تذکیر و تبلیغ‘ ان سب کا مرکز و محور خود قرآن ہے. چنانچہ سیرت مطہرہ میں بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ آپؐ نے ہر جگہ قرآن ہی کو پیش کیا‘ اپنی بات کہنے اور اپنی تقریر کرنے سے حتی الامکان احتراز فرمایا. بعض لوگوں نے خطباتِ نبویؐ کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بہت ہی قلیل تعداد میں خطبات دستیاب ہو سکے ہیں. آپؐ کی گفتگو نہایت جامع اور مختصر ہوتی تھی اور جس جگہ بھی آپؐ دعوت پہنچانے کے لیے تشریف لے جاتے قرآنی آیات لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور ان کے ذریعے انذار‘ تبشیر اور تذکیر فرمایا کرتے تھے کہ یہ ایک کلام ہے جو مجھ پرنازل ہوا ہے. یہ ایک پیغام ہے جس کو لے کر میں آیا ہوں. اسی قرآن کے ذریعے سے آپؐ نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا. تو گویا انقلابِ محمدیؐ کا نقطۂ آغاز ہے تلاوتِ آیات اور اس کے ذریعے انذار و تبشیر‘ تذکیر و نصیحت اور دعوت وتبلیغ!