یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کے بعد اب آگے چلیے! وَ یُزَکِّیۡہِمۡ . یہ وہ مرحلہ ہے جس کے بارے میں بدقسمتی سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور یہ خیال عام ہے کہ قرآن مجید نے شاید تزکیۂ نفس کا کوئی طریقہ ہمیں عطا نہیں فرمایا! بلاشبہ یہ بہت بڑا سوئے ظن ہے. اسی طرح بعض لوگوں کے طرزِ عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سوئے ظن میں مبتلا ہیں کہ نبی اکرم نے تزکیۂ نفس کا کوئی طریقہ ہمیں عطا نہیں فرمایا. میں پھر عرض کروں گا کہ یہ بہت بڑا سوئے ظن ہے قرآن حکیم سے بھی اور محمد رسول اللہ سے بھی.
تزکیے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس مرحلے پر اسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے. پہلی بات یہ نوٹ کیجیے کہ تزکیہ کرنا انسان کا مطلوب ہے اور انسان مجموعہ ہے دو چیزوں کا. ایک ہے اس کی فکر اور اس کی سوچ اور دوسری چیز ہے اس کا عمل اور اس کی روش یا اس کا وہ طرزِ عمل جو وہ زندگی میں اختیار کرتا ہے.

کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے فکر و عمل میں بُعد یا تضاد پایا جاتا ہے. ایسے شخص کو آپ ایک مریض شخصیت قرار دیتے ہیں‘ اسے نارمل انسان نہیں قرار دیاجاتا‘ ورنہ ایک نارمل انسان کا ناقابل تقسیم اکائی (intergrated whole) ہوتا ہے‘ اس کا عمل اور اس کا رویہ درحقیقت اس کے نظریات‘ اس کے افکار‘ اس کی سوچ اور اس کی فکر پر مشتمل ہوتا ہے. اگر سوچ غلط ہے ‘ نقطۂ نظر غلط ہے‘ قلوب و اذہان پر اگر غلط نظریات و افکار کا تسلط ہے تو ظاہر بات ہے کہ عمل از خود غلط ہو جائے گا. عمل کو درست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے سوچ کو درست کیجیے‘ نقطۂ نظر کی اصلاح کیجیے‘ فکر کو صحیح بنیادوں پر استوار کیجیے‘ اسے صحیح اساس پر reconstruct کیجیے اور تب توقع رکھیے کہ اس کا عمل درست ہو گا اور صحیح خطوط پر استوار ہو گا. قرآن مجید کا طریق تزکیہ یہ ہے. چنانچہ اس آیت میں تزکیے کا ذکر دراصل یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کے نتیجے کے طور پر آیا ہے کہ آیاتِ الٰہیہ کے ذریعے سے جب انسان کے فکر کی اصلاح ہو گئی‘ اس کے نظریات درست ہو گئے‘ الحاد و مشرکانہ اوہام کی جڑیں جب انسان کے ذہن اور اس کے قلب سے کٹ گئیں تو گویا اس طریقے سے غلط اعمال‘ غلط کردار اور غلط عادات کی جڑ بھی کٹ گئی. اس لیے کہ ان کے لیے اب غذا مہیا نہیں ہو رہی. نتیجہ یہ نکلے گا کہ غلط اعمال بالکل اس طرح سے انسانی سیرت سے علیحدہ ہو جائیں گے جس طرح سے پت جھڑ کے موسم میں پتے درختوں سے گر جاتے ہیں.
بدقسمتی سے تزکیۂ نفس کے ضمن میں ہمارے صوفیاء نے جو مختلف طریقے اختیار کیے ہیں وہ طریق نبویؐ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے. ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد ہمارے ہاں اس وحدتِ فکر و عمل میں بتدریج زوال آتا چلا گیا جو دورِ خلافت راشدہ کا طرۂ امتیاز تھا. کچھ لوگ قانون اور فقہ کے ماہر بن گئے اور کچھ نے تزکیۂ نفس کے میدان کو اختیار کر لیا. اس طریقے سے مختلف گوشوں میں یہ تمام امور بڑھتے چلے گئے اور ہر گوشہ اپنے ہی انداز میں ترقی کرتا اور پروان چڑھتا رہا. اس طرح وہ وحدت فکر و عمل جو قرآن مجید نے عطا کی تھی‘ مجروح ہوئی. چنانچہ تزکیۂ نفس کے معاملے میں نمعلوم کہاں سے یہ نظریات لیے گئے اور کہاں سے یہ نفسیاتی ریاضتیں اور مشقتیں اخذ کی گئیں کہ جن کے ذریعے سے تصفیۂ باطن‘ تزکیۂ نفس اور تربیتی روحانی کی کوشش کی جاتی ہے. اس ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ میں گہرے احساس کے ساتھ اور علیٰ وجہ البصیرت یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس میدان میں طریقِ نبویؐ سے کچھ زیادہ ہی دور ہوتی چلی گئی. نبی اکرم کا طریقۂ تربیت اور اسلوبِ تزکیہ اس سے بہت مختلف تھا.

نبی اکرم نے تزکیۂ نفس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا تھا وہ یہی تھا کہ پہلے اس قرآن کے ذریعے سے فکر کی تطہیر کی جائے‘ نقطۂ نظر اور سوچ کی اصلاح کی جائے‘ نتیجتاً 
غلط اعمال پت جھڑ کے پتوں کی طرح از خود جھڑ جائیں گے یا جیسے اس درخت کے پتے سوکھ کر جھڑ جاتے ہیں جس کی جڑ کاٹ دی گئی ہو. یہ ہے تزکیہ کا عمل اور جان لیجیے کہ قرآن مجید ہی درحقیقت اس عمل تزکیہ کا بھی محور ہے. ’’ تلاوتِ آیات‘‘ کی طرح تزکیے کی اساس اور بنیاد بھی یہی قرآن ہے. افسوس یہ ہے کہ اس معاملے میں جو طریقے اختیار کیے گئے ان میں بالعموم قرآن حکیم کو نظر انداز کر دیا گیا. علامہ اقبال نے اس تلخ حقیقت کی جانب اپنے ان اشعار میں بڑی خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے : ؎

صوفی پشمینہ پوشِ حال مست
از شراب نغمہ قوال مست
آتش از شعر عراقی در دلش
در نمی سازد بقرآں محفلش

کہ اس عمل تزکیہ کا سارا تعلق قرآن حکیم سے تو کٹتا چلا گیا اور صوفیوں کا حال بالعموم یہ ہو گیا کہ عراقی یا اس قبیل کے دیگر شعراء کے اشعار سے تو ان کے دلوں میں حرارت پیدا ہو تی ہے لیکن قرآن کو سن کر اُن کی آنکھیں پرنم نہیں ہوتیں. اس لیے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے سے اندرونی کثافتوں اور کدورتوں کی صفائی کا جو طریقہ تھا محمدٌ رسول اللہ کا‘ وہ متروک ہوتا چلا گیا اور تزکیہ کا عمل جو درحقیقت براہِ راست نتیجہ تھا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کا اسے اس کی اصل سے کاٹ دیا گیا.علامہ اقبال نے بعض حقائق کی تعبیر بڑی خوبصورتی سے کی ہے اور اس اعتبار سے میری گفتگو میں اُن کا بار بار حوالہ آ رہا ہے . وہ کہتے ہیں : ؎
کشتن ابلیس کارے مشکل است
زاں کہ اُو گم اندر اعماقِ دل است 

کہ ابلیس کو قتل کردینا اور اس کوبالکل ختم کر دیان بڑا مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ وہ تو لوگوں کے وجود کے اندر سرایت کرجاتا ہے‘ دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے. یہ درحقیقت اس حدیثِ نبویؐ کا ترجمہ یا ترجمانی ہے کہ جس میں نبی اکرم نے فرمایا: 

اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ ’’بے شک شیطان تو انسان کے وجود کے اندر اس طرح جاری و ساری ہو جاتا ہے جیسے (اس کی رگوں میں) خون دوڑتا ہے‘‘.
اس کے بعد علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ 

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیر قرآنش کنی 

اس شعر کے پہلے مصرعے میں بھی درحقیقت ایک حدیث کی طرف اشارہ ہے. ایک مرتبہ نبی اکرم نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے. اس پر صحابہؓ میں سے واقعتا کسی نے بڑی ہمت کر کے سوال کیاکہ حضور! کیا آپؐ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟ آپؐ نے فرمایا:ہاں ہے‘ لیکن میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے. علامہ اقبال نے اسی حدیث کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ؏ 

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی

یعنی بہتر یہ ہے کہ تم اس شیطان کو مسلمان کر لو! لیکن اس کا طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ ؏ 
کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

اسے قرآن کی شمشیر سے قتل کرو. تمہارے اندر یہ غلط خیالات‘ غلط رجحانات‘ غلط جذبات اور غلط شہوات پیدا ہو رہی ہیں تو یہ درحقیقت تمہاری غلط سوچ و فکر اور تمہارے نقطۂ نظر کے کج ہو جانے کا نتیجہ ہے. یہ قرآن ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہاری سوچ کو صحیح کرے گا‘ تمہارے نقطۂ نظر کو درست کرے گا‘ اور تمہارے نظامِ اقدار 
(Value System) کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے گا. یہ ہے وہ طریقہ کہ جس سے تمہاری شخصیت میں انقلاب آئے گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غلط عادات اور غلط افکار کے دھبے تمہاری شخصیت سے خود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے اور باطن کے اس انقلاب کے بعد ہی تم اس قابل ہو سکو گے کہ خارج میں بھی انقلاب برپا کر سکو!

میں یہاں پھر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم کے اس انقلابی عمل میں قرآن حکیم کو جو اہمیت حاصل ہے اور جس کو بڑے ہی اجمال کے ساتھ مولانا حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ؎

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں اس حقیقت کو علامہ اقبال مرحوم نے کماحقہ ٗ سمجھا ہے اور اس کا ادراک کیا ہے. چنانچہ قرآن مجید کی عظمت کا بیان جس طرح ہمیں ان کے ہاں ملتا ہے‘ وہ اس دَور کے کسی اور شخص کے ہاں نہیں ملتا. اس ضمن میں ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمایے ؎

گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
آن کتابِ زندہ قرآن حکیم
حکمت اُو لایزال است و قدیم
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیداست اُو
زندہ و پایندہ و گویاست اُو
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

ان اشعار میں سے آخری شعر میں علامہ اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ جب یہ قرآن کسی کے باطن میں سرایت کرجاتا ہے تو اس کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے‘ اس کے اندر ایک عظیم انقلاب آ جاتا ہے‘ اس کی سوچ‘ اس کا فکر اور اس کے نظریات بدل جاتے ہیں‘ اس کی اقدار‘ اس کا نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ تبدیل ہو جاتا ہے. اب گویا کہ وہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا انسان ہے اور اس کے اندر سے جو یہ تبدیلی ابھری ہے‘ یہی درحقیقت صحیح طور پر خارج میں ایک تبدیلی برپا کر دے گی اور اس طرح تمام غلط رویے اور تمام غلط اعمال خود بخود ہوتے چلے جائیں گے‘ کیونکہ اندر سے ان کو غذا دینے والی جڑیں اب کاٹی جا چکی ہیں.