احکامِ شریعت میں حکمت تدریج

حلال و حرام کے احکام دینے میں یہ تدریج اور ترتیب برقرار رکھی گئی ہے کہ انہیں قلوب و اذہان کو بدلے بغیر نافذ نہیں کیا گیا. جب ذہن و فکر کی تبدیلی عمل میں آ چکی‘ دلوں کی دنیا میں ایمان جاگزیں اور راسخ ہو چکا اور بنیادی طو رپر برے کردار اور برے اخلاق سے انسان کا دامن صاف ہو چکا تو اب یوں سمجھئے کہ گویا زمین میں ہل چل چکا ہے اور وہ بیج ڈالے جانے کے لیے پوری طرح تیار ہے. اب بیج ڈالیں گے تو وہ بیج بارآور ہو گا‘ نتیجہ خیز ہو گا. زمین کو تیار کیے بغیر بیج ڈال دیا جائے تو بیج ضائع ہو جائے گا. چنانچہ جب یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کا عمل کیا جا چکااور تزکیے کے بنیادی تقاضے پورے ہو چکے‘تب کہا گیا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو! اور اس وقت ہر حکم کو پوری خوش دلی کے ساتھ قبول کیا گیا. غور کیجیے کہ قرآن میں پہلے ہی حلال اور حرام کے احکام کیوں نہیں آ گئے اور ان کا نزول اتنی دیر کے بعد کیوں ہوا؟ یا پورا قرآن یک دم کیوں نازل نہیں کر دیا گیا؟ اس کی وجہ یہی حکمت تدریج ہے. پہلے وہ آیات اور سورتیں اُتریں جنہوں نے قلوب و اذہان کی دنیا میں ہل چلایا اور اس میں سے کثافتوں کو نکال کر باہر پھینک دیا‘ایمان کی بنیادوں کو استوار کیا‘ نتیجتاً بنیادی انسانی اخلاقی پروان چڑھے اور گندگیوں سے سیرتیں پاک ہو گئیں. اس طرح جب یہ زمین پوری طرح تیار ہو گئی تو اس میں بیج ڈالا گیا اور یہ بیج خوب بار آور ہوا. یہ ہے وہ حکمت اور تدریج کہ جو قرآن مجید نے اپنے نزول میں ملحوظ رکھی‘ یا صحیح تر الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآن کے نازل کرنے والے نے اس کے نازل کرنے میں پیش نظر رکھی اور اسی حکمت اور اسی تدریج کے ساتھ محمدٌ رسول اللہ نے انقلاب برپا کیا.

یہ اسی کا مظہر ہے کہ ذہنی و قلبی تربیت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو بھی حکم دیا گیا وہ انہوں نے بلاتأمل قبول کیا. انہیں جس چیز کے چھوڑے کو کہا گیا وہ انہوں نے فوراً ترک
کر دی. غور کیجیے کہ شراب جیسی چیز جسے طبی دنیا میں بھی ’’habit making‘‘ مانا جاتا ہے اور جو انسان کے پورے جسمانی نظام کے ساتھ اس طرح وابستہ ہو جاتی ہے کہ پھر اس کا دفعتاً چھوڑ دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے ‘ جب اس کی حرمت کا حکم آتا ہے تو قرآن مجید اور محمدٌ رسول اللہ کا اعجاز دیکھئے کہ شراب کا جام اگر کسی کے ہونٹوں تک بھی پہنچا ہوا تھا تو اس کا ایک گھونٹ اس کے اندر نہیں گیا. شراب کی حرمت کے اعلان کے ساتھ ہی اس کے تمام برتن توڑ ڈالے گئے اور مدینے کی گلیوں میں شراب کی ندیاں بہہ نکلیں. حالانکہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کی گھٹی میں شراب تھی‘ جن کے ہاں شراب کابالکل وہی تصور تھا جو آج آپ کو مغربی تہذیب میں نظر آتا ہے کہ پانی تو پانی ہے‘ لیکن پینے کی اصل شے شراب ہے. شراب ان کی تمدنی زندگی کا جزو لاینفک تھی‘ شراب پیتے ہوئے ان کی ساری ساری عمریں بیت گئی تھیں‘ شراب ان کی گھٹی میں پڑی تھی‘ لیکن جب شراب کی حرمت کا حکم آ گیا تو انہوں نے اس کو کسی توقف کے بغیر چھوڑ دیا‘ اور اس شان کے ساتھ چھوڑا کہ پھر پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا. یہ درحقیقت محمدٌ رسول اللہ کا ایک معجزہ ہے اور اس معجزے کی بنیاد یہی تدریج اور حکمت ہے.

احکام کی تنفیذ سے پہلے ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوچکا تھا. یہ یقین پیدا ہو چکا تھا کہ محمد ( ) جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنی طرف سے نہیں‘ اللہ کی طرف سے کہہ رہے ہیں 
وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ انہیں اللہ کی ذات اور آخرت پر یہ پختہ یقین حاصل ہو چکا تھا کہ مرنے کے بعد اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے‘جہاں تمام اعمال کی جواب دہی ہو گی اور یہ کہ اصل زندگی آخرت کی ابدی زندگی ہے.جب یہ یقین پیدا ہو چکا تو اب کسی لمبے چوڑے استدلا ل کی ضرورت نہیں. چنانچہ جب سود کی حرمت کا حکم آیا تو اس کے لیے کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں پڑی. تجارت کے ساتھ اس کی ظاہری مشابہت کی بناء پر اگر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ تو جواب صرف یہ دیا گیا: وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ 

کہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے. تو جو کوئی اللہ کو مانتا ہو اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ محمد ( ) یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے‘ اللہ کی طرف سے کہہ رہے ہیں‘ تو اب اس کے لیے چون و چرا کی کوئی گنجائش نہیں.

اس کے برعکس امریکہ میں بڑے ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر شراب پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا. چنانچہ شراب نوشی کے نقصانات گنوائے گئے‘ بتایا گیا کہ ٹریفک کے حادثات اکثر و بیشتر شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں‘ کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ کسی ذمہ داری افسر کو شراب کے نشے میں مست کر کے جاسوس حسینائیں اس سے قومی اہمیت کے بڑے بڑے راز اگلواکر لے گئیں. لیکن اس طرح کے متعدد حقائق بیان کرنے اور پورے اعداد و شمار مہیا کرنے کے بعد بھی جب اس پر پابندی عائد کی گئی تو یہ سارے اعداد و شمار‘ یہ سارا فلسفہ اور سارے طبی اور سائنسی حقائق دھرے کے دھرے رہ گئے اور ؏ ’’چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق پابندی کا یہ حکم قبول نہیں کیا گیا.نتیجہ یہ نکلا کہ یہ حکم واپس لینا پڑا اور شراب کی حلت کو پھر سے تسلیم کرنا پڑا. لیکن محمدٌ رسول اللہ نے جو انقلاب برپا کیا اس کے 
process میں ہمیں ایک تدریج نظر آتی ہے. چنانچہ پہلے کتابِ الٰہی کی تلاوت آیات اور پھراسی کے ذریعے سے تزکیۂ نفوس کے بعد تعلیم کتاب یعنی احکامِ شریعت کی تعلیم اور تنفیذ کا مرحلہ آتا ہے. اس مرحلے پر اب اوامر و نواہی‘ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پوری فہرست دے دی گئی اور اس کی تنفیذ بھی ہوگئی.