اللہ کے چار اسماءِ حسنیٰ اور نبی اکرمﷺ کے فرائض چہارگانہ

اس آیۂ مبارکہ کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے چار اسماء وارد ہوئے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے. قرآن مجید میں اللہ کے اسماء وصفات عام طور پر آیات کے آخر میں وارد ہوتے ہیں‘ لیکن اکثر و بیشتر جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں. مثلاً وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ‘ وَہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ‘ وَہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ وَقَسَّ عَلٰی ذٰلِکَ. لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اکٹھے چار اسماء وارد ہوئے ہیں. نوٹ کیجیے کہ اس کا اصل سبب اس سورۂ مبارکہ کا عمود ہے. ذہن میں تازہ کیجیے کہ اس مرکزی آیت میں جس پر ہم غور کر چکے ہیں‘ نبی اکرم کے طریق کار کے ضمن میں چار اصطلاحات آئی ہیں‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ آپؐ کی چار شانوں کا ذکر ہے : تلاوتِ آیات‘ تزکیہ‘ تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت. درحقیقت ان چاروں کا بڑا گہرا ربط ہے ان چار اسماءِ حسنیٰ کے ساتھ!وہ’’الملک‘‘ ہے. یعنی بادشاہِ ارض و سماوات ہے. چنانچہ اس کی آیات پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں‘ جیسے کوئی منادی کرنے والا شہنشاہ کے فرامین (proclamations) لوگوں کو سنا رہا ہو. گویا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖعکس ہے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی ’’الۡمَلِکِ ‘‘ کا.دوسری شان اللہ کی یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ الۡقُدُّوۡسِ ہے‘یعنی انتہائی پاک.

غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ قدوسیت کا بڑا گہرا تعلق ہے نبی اکرم کے بارے میں بیان کردہ دوسری اصطلاح وَ یُزَکِّیۡہِمۡ یعنی عمل تزکیہ کے ساتھ اسی طرح وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ (وہ تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب یعنی احکامِ شریعت کی) میں اللہ تعالیٰ کی شان ’’العزیز‘‘ کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے. وہ زبردست ہے‘ مختارِ مطلق ہے‘ وہ جو چاہے حکم دے‘ بندوں کا کام ہے اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت! سورۃ التغابن میں یہ مضمون آ چکا ہے : وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ’’سنو اور اطاعت کرو‘‘. سورۃ البقرۃ میں سود کے بارے میں فرمایا: وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ کان کھول کر سن لو! اللہ نے سود حرام کیا ہے اور بیع کو حلال ٹھہرایا ہے‘ تم کون ہوتے ہو اُس پر اعتراض کرنے والے؟ یہ ہے ’’العزیز‘‘ کا مفہوم. یعنی ایک ایسی ہستی جس کے اختیارات پر کوئی تحدید نہ ہو‘ کوئی limitations نہ ہوں‘ کوئی checks & balances نہ ہوں‘مختارِ مطلق! اورآخری اور چوتھا لفظ جو اللہ کی شان میں آیا ہے ’’الۡحَکِیۡمِ ‘‘ اس کا ربط وتعلق گویا از خود ظاہر ہے نبی اکرم کے فرائض چہارگانہ میں سے چوتھے کے ساتھ ہے جو درحقیقت نبی اکرم کے اساسی منہاج کا نقطۂ عروج ہے‘ یعنی تعلیمِ حکمت!

تو پہلی آیت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ایک پُرشکوہ اور پُرجلال تمہید ہے. اور اس کے بعد آئی وہ آیت جس پر ہم غور کر چکے : 

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ 
اس ’’ہُوَ‘‘ کو جوڑ لیجیے پہلی آیت کے ساتھ کہ محمد کا بھیجنے والا ہے کون؟ وہ کہ جس کی تسبیح میں آسمان و زمین کی ہر شے ہمیشہ سے اور ہر آن لگی ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیش تسبیح میں لگی رہے گی‘ 
جو الملک ہے‘ القدوس ہے‘ العزیز ہے‘ الحکیم ہے. وہ ہے کہ جس نے اٹھایا اُمِّیّٖنَ میں سے ایک رسول جو انہی میں سے ہے. جہاں تک ان اصطلاحات کا تعلق ہے ان پر تو ہم کسی درجے میں غور و فکر کر چکے ہیں‘ اب ہمیں اس آیۂ مبارکہ کے بعض دوسرے پہلوؤں پر توجہ مرتکز کرنا ہے.