یہاں یہ اشارہ کردیا گیا کہ یہ درجہ بدرجہ فضل کا معاملہ ہے. اللہ کا سب سے بڑھ کر فضل ہوا محمد رسول اللہ پر. سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا: اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ﴿۸۷﴾ کہ اے نبی( ) آپ پر اس کا بہت بڑا فضل ہوا. آپؐ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہو گا جسے مقامِ محمود سے تعبیر فرمایا گیا ہے: عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا ﴿۷۹﴾ تو اوّلین اور بلند ترین فضیلت حاصل ہوئی محمدٌ رسول اللہ کو جو سید الاوّلین والآخرین ہیں‘ سید الانبیاء ہیں‘ امام الرسل ہیں. پھر بقیہ نوعِ انسانی کے مقابلے میں ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہوا اُمّیین کو یعنی بنو اسماعیل کو؏ 
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

اب یہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور دین ہے کہ اس نے عربوں کو چن لیا اور ان میں اپنا آخری نبی مبعوث فرمایا‘ ان کی زبان میں اللہ کا آخری کلام نازل ہوا‘ جو طور طریقے ان کے ہاں رائج تھے انہی میں قطع و برید کر کے آخری اور کامل شریعت کا تانا بانا تیار کیا گیا. یہ بات اس سے پہلے سورۃ الحج کے آخری رکوع میں ہم پڑھ آئے ہیں : 
ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ کسی غیر ابراہیمی نسل کے انسان کے لیے مغائرت کا کوئی معاملہ ہو سکتا ہے. زبان کا حجاب ایک بڑی رکاوٹ ہے‘ پھر نسلی اور موروثی عادات و خصائل کا معاملہ ہے جو منافرت کا سبب بن سکتا ہے. لیکن اے بنو اسماعیل! تمہارے لیے تو کوئی غیریت نہیں‘ کوئی اجنبیت نہیں‘ تمہارے جو موروثی مراسم تھے ان ہی میں سے اکثرو بیشتر کو معمولی سی قطع و برید کے بعد اس آخری شریعت کا جزء بنا لیاگیا. یہ طواف تمہارے ہاں ہوتا چلا آ رہا تھا‘ قربانی کی رسم تمہارے ہاں چلی آ رہی تھی‘ منیٰ اور عرفات کا قیام کسی نہ کسی درجے میں تمہارے ہاں جاری تھا‘ تلبیہ تمہارے ہاں مروج تھا‘ اگرچہ اس میں تم نے اپنی طرف سے بعض شرکیہ کلمات شامل کر لیے تھے. گویا مجموعی طور پر وہ پورا ڈھانچہ (structure) موجود تھا جس میں ترمیم و اضافہ کر کے آخری شریعت کا تانا بانا تیار ہوا. تویہ بلاشبہ ایک فضیلت کا مقام ہے جو انہیں حاصل ہوا. پھر درجہ بدرجہ یہ فضیلت حاصل ہے نوعِ انسانی کے ہر اُس فرد کو جو دامنِ محمدیؐ سے وابستہ ہو جائے‘ جو ملت اسلامیہ میں شامل ہو جائے‘ جو اس اُمت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسَّلام) میں شریک ہو جائے . ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾