اُمت مسلمہ کے لیے ایک پیشگی تنبیہہ

اب آیئے آیت کے آخری ٹکڑے کی طرف : وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ ’’اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘. نوٹ کیجیے‘ یہ وہی انداز ہے جو سورۃ الصف میں آ چکا ہے. وہاں ظالم کی بجائے فاسق کا لفظ تھا : وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾ اسلوب اور اسٹائل بعینہٖ وہی ہے. یہ چیز اُن مشترک اوصاف میں سے ہے جو جڑواں سورتوں میں پائے جاتے ہیں. بہرحال اس آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ گئی کہ کتابِ الٰہی کے حامل ہونے کے ناطے ہر اُمت اور ہر قوم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ اگر اُن ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا جائے تو درحقیقت یہ طرزِ عمل تکذیب کتاب کے مترادف ہے. یہ ایک پیشگی تنبیہہ تھی اُمت مسلمہ کو کہ اے مسلمانو! کہیں یہی معاملہ تم کتاب اللہ کے ساتھ نہ کر بیٹھنا! یہی وہ بات ہے جو نبی اکرم کے ایک نہایت جامع فرمان میں ہمارے سامنے آتی ہے. فرمایا: یَااَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ’’اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ نہ بنا لینا‘‘. وسادہ کہتے ہیں تکیے کو.

یہ جملہ دو مفہوم دے رہا ہے (۱) تکیہ پیٹھ کے پیچھے ہوتا ہے‘ اس اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ قرآن کو پس پشت نہ ڈال دینا. اور (۲) تکیے پر انسان سہارا لیتا ہے. اور ایک سہارا ذہنی اور نفسیاتی بھی ہوتا ہے. اس پہلو سے مفہوم یہ ہو گا کہ قرآن کو اس طرح کا ذہنی اور نفسیاتی سہارا نہ بنا بیٹھنا کہ ہم تو حامل کتاب ہیں‘ قرآن کے وارث ہیں ‘ محمد کے اُمتی ہیں. اس طرح کا ذہنی سہارا بسا اوقات بے عملی کو جنم دیتاہے. چنانچہ روک دیا گیا کہ قرآن کو اس نوع کا ایک ذہنی سہارا نہ بنا لینا‘ بلکہ تمہاری اصل توجہ اس جانب ہونی چاہیے کہ قرآن کے حوالے سے ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ قرآن کے ساتھ ہمارا عملی رویہ کیا ہونا چاہیے‘ اور یہ کہ قرآن مجید کے وہ کون کون سے حقوق ہیں جن کی ادائیگی کی فکر ہر مسلمان کو کرنی ہے اور ان کی ادائیگی کی عملی صورت کیا ہے؟