نبی اکرم کی جس حدیث شریف کا ابھی ذکر ہوا تھا اس میں اس پیشگی تنبیہہ کے بعد کہ یَااَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ’’اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ اور ذہنی سہارا نہ بنا لینا‘‘ آپؐ نے بڑی جامعیت کے ساتھ ان اساسات کو واضح فرمایا‘ کہ جن پر قرآن حکیم کے ساتھ اُمت مسلمہ کے صحیح تعلق کا دار و مدار ہے‘ اور جن کی بجا آوری کی اُمت کو فکر کرنی چاہیے . فرمایا: وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ فِیْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ’’اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے‘ رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی ‘‘. وَتَغَنَّوْہُ ’’اور اسے خوش الحانی سے پڑھا کرو!‘‘اس لیے کہ ہر انسان کو کسی نہ کسی درجے میں حسن سماعت سے بھی حصہ ملتا ہے. بندۂ مؤمن کے لیے اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ اچھی سے اچھی آواز میں اور بہتر سے بہتر انداز میں قرآن مجید کو پڑھے اور اس سے حظ حاصل کرے.

آگے فرمایا: 
وَافْشُوْہُ ’’اور اسے پھیلاؤ‘‘. اسے عام کرو! حضرت مسیح علیہ السلام نے بڑی پیاری بات فرمائی تھی کہ چراغ جلا کر اسے کہیں نیچے نہیں رکھا کرتے‘ بلکہ بلند مقام پر رکھتے ہیں تاکہ اس کی روشنی عام ہو. یہ نورِ ہدایت‘ قرآنِ حکیم نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا ہے. جس کا نقشہ کھینچا گیا اس شعر میں ؎

اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل

بھٹکتے ہوئے قافلہ انسانیت کے لیے قندیل ہدایت یہی قرآن ہے. ا س کو پھیلانے اور عام کرنے کی نبی اکرم نے تاکید فرمائی . اسی کی جانب اشارہ فرمایا آپؐ نے اپنے آخری خطبے میں : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبُ ’’ کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ اس پیغام کو پہنچائیں ان تک جو یہاں موجود نہیں‘‘. اور اس بات کو منطقی انتہا تک آپؐ نے پہنچا دیا اپنے اس قولِ مبارک کے ذریعے کہ :بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً ’’پہنچاؤ میری جانب سے‘ خواہ ایک ہی آیت ہو‘‘. چراغ سے چراغ اسی طور سے روشن ہو گا. اس ضمن میں آپؐ کا یہ ارشاد بھی نہایت اہم ہے: خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘ جو قرآن کے پڑھنے پڑھانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور متفق علیہ روایت ہے. یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے.
حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں : 
وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ’’اس پر غور و فکر کرو (اس کے مفاہیم و معنی کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کرو) تاکہ تم فلاح اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکو!‘‘

اسی سلسلے میں ایک اور حدیث بھی جس کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں‘ انتہائی توجہ کے لائق ہے. نبی اکرم قرآن کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ’’اور یہ کتاب وہ ہے جس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ ’’اور اہل علم اس سے کبھی سیری محسوس نہیں کریں گے‘‘ وَلَا یخلق عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ ’’بار بار کے پڑھنے کے باوجود (اس سے طبیعت اکتائے گی نہیں) اس پر پرانے پن کا کوئی احساس کبھی پیدا نہ ہونے پائے گا‘‘یہ ہے اللہ کی کتاب‘ جس کے حقوق کی ادائیگی ہم سب کو فکر ہونی چاہیے.

اس موضوع پر اللہ کے فضل و کرم سے مَیں نے کسی زمانے میں مسجد خضریٰ لاہور میں دو تقریریں کی تھیں جو اَب ایک کتابچے کی شکل میں موجود ہیں‘ جس کا عنوان ہے ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ یہ کتابچہ یوں سمجھئے کہ نبی اکرم کی اس حدیث ہی کی وضاحت پر مشتمل ہے کہ ’’اے مسلمانو! حامل قرآن ہونے کے اعتبار سے پہچانو کہ تمہاری ذمہ داریاں کیا ہیں‘ تمہارے فرائض کیا ہیں! اس کو مانو جیسا کہ ماننے کا حق ہے‘ اسے پڑھو جیسا کہ اسے پڑھنے کا حق ہے‘ اس کو سمجھو جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے ‘ اس پر عمل کرو جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے‘ اور آخری ذمہ داری یہ کہ اس کو پھیلاؤ‘ اس کی تبلیغ و تبیین کرو جیسا کہ اس کی تبلیغ کا حق ہے‘‘. چہاردانگ عالم کو اس کے نور سے منور کرنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں خرچ کرنا اور کھپانا ہر مسلمان پر اس کتاب عزیز کا وہ حق ہے جسے ہم فراموش کیے ہوئے ہیں. نبی اکرم کی بعثت چونکہ 
اِلٰی کَافَّـۃَ النَّاسِ تھی‘ یعنی آپؐ تاقیامِ قیامت پوری نوعِ انسانی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں‘ لہذا نبی اکرم نے تبلیغ و تعلیم قرآن کے ذریعے ایک مخصوص خطہ زمین میں ایک انقلابِ عظیم برپا فرما دیا اور وہاں بسنے والی قوم کو وہ نسخۂ کیمیا قرآن مجید عطا فرما کر آپؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے. اب اُمت کا فرضِ منصبی یہ قرار پایا کہ وہ اس چراغ کو لے کر نکلے اور اس کے نور سے روئے ارضی کو منور کر دے ؎

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!

ذہن میں رکھیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے اس فرضِ منصبی کا پورا شعور حاصل تھا. چنانچہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن تھا تو دوسرے میں تلوار! حقیقت یہ ہے کہ ایک مردِ مؤمن کی شخصیت کا جو ہیولا انسان کے تصور میں اُبھرتا ہے اس میں لازماً یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے میں تلوار.ایک طرف قرآن کو دوسروں تک پہنچانا‘ اس کے نورِ ہدایت کو عام کرنا اور دوسری جانب اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اللہ اور اس کے دین کے دشمنوں سے جہاد اور قتال‘ یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا نقشہ!