یہ ہے وہ کام کہ جو نبی اکرم اُمت کے سپرد فرما کر گئے تھے.اس سلسلے میں پیشگی تنبیہہ سورۃ الجمعہ میں کر دی گئی کہ دیکھنا کہیں ا س کے برعکس تمہارا طرزِ عمل یہود کا سا نہ ہو جائے‘ جنہوں نے اللہ کی کتاب کے ساتھ وفاداری نہیں کی تو اللہ نے انہیں اس گدھے کے مشابہ قرار دیا جس پر کتابوں کا بوجھ لدھا ہوا ہو.

بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵
’’نہایت بری مثال ہے اس قوم کی جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا‘ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘.

یہ بات دوسری ہے کہ نبی اکرم کا قول مبارک ہمارے میں پورا ہوا ہے کہ 

لَــیْـاَتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ کَمَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّـعْلِ بِالنَّعْلِ
اور ہم بیعنہٖ یہود کے نقش قدم پر چل رہے ہیں‘ چنانچہ قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق بس اتنا رہ گیا ہے کہ ؎ 

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یاسین اُو آساں نمیری 

قرآن ہمارے نزدیک محض ایصالِ ثواب یا حصولِ ثواب کا ایک ذریعہ ہے یا موت کو آسان کرنے کا ایک نسخہ کہ مرتے ہوئے سورۂ یٰسین سنا دی جائے تاکہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے. ہماری عملی زندگی کا قرآن حکیم سے کوئی تعلق نہیں. نہ یہ ہماری رہنما کتاب ہے‘ نہ یہ ہماری امام ہے‘ نہ یہ قولِ فیصل ہے کہ ہمارے تمام فیصلے اسی پر مبنی ہوں‘ نہ اس پر ہماری زندگی کا نظام استوار ہے. تو گویا بعینہٖ وہ بات کہ جو یہود کو نشانِ عبرت کے طور پر پیش کر کے ہمیں بطور تنبیہہ کہی گئی تھی ہماری بدبختی اور بدقسمتی کہ ہم پر صادق آ رہی ہے اور ہم اس وقت اپنی موجودہ صورت حال سے اس کا ایک مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں.

اگلی آیات میں یہ حقیقت کھولی گئی ہے کہ کسی مسلمان اُمت میں زوال اور گمراہی کا پیدا ہو جانا کن اسباب سے ہوتا ہے! بڑی جامعیت کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کیا گیا : 

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۶
’’(اے نبیؐ ) کہیے: اے یہودیو! اگر تمہیں یہ زُعم ہے (اگر تمہیں یہ خیالِ خام لاحق ہو گیا ہے) کہ تم اللہ کے بڑے دوست ہو (اس کے چہیتے اور محبوب ہو) لوگوں کو چھوڑ کر‘ تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو!‘‘

دوست سے ملاقات کی آرزو ہر شخص کو ہوتی ہے‘ اس سے دُوری تو انسان پر شاق گزرتی ہے.