یہاں اشارہ ہوا اس بات کی طرف کہ کسی مسلمان اُمت میں عملی گمراہی اور اضمحلال کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہنوں میں بالعموم یہ خیالِ خام راسخ ہو جاتا ہے کہ ہم بخشے بخشائے ہیں‘ ہم اللہ کے چہیتے ہیں: نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ ہم اللہ کے برگزیدہ بندوں کی اولاد اور اس کے پسندیدہ بندوں کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھنے والے لوگ ہیں‘ جہنم کی آگ ہمارے لیے نہیں کسی اور کے لیے ہے. اس زعم اور بے بنیاد خیال کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تساہل اور عملی زوال شروع ہو جاتا ہے. پھر انسان اپنی نجات کے معاملے کو عمل کرنے کی بجائے ان تعلقوں اور نسبتوں پر موقوف سمجھنا شروع کر دیتا ہے. چنانچہ اس معاملے میں جھنجوڑنے کے لیے ایک بڑی ہی عملی مثال سامنے لائی گئی کہ اگر تمہیں فی الواقع یہ خیال ہے کہ تمہیں خدا سے محبت ہے تو اس سے جلد سے جلد ملاقات کا جذبہ اور شوق تمہارے دل میں موجزن ہونا چاہیے. وہ جس کا نقشہ کھینچا علامہ اقبال نے ان الفاظ میں ؎

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم 
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست 

اپنے گریبانو میں جھانکو‘ کیا واقعی یہ کیفیت ہے؟ کیا واقعی یہ زندگی تم پر اسی طرح بھاری گزر رہی ہے جیسے کہ حضور نے نقشہ کھینچا تھا کہ : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْـکَافِرِ ’’یہ دنیا ایک بندۂ مؤمن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے گلستان‘‘. یا معاملہ اس کے برعکس ہے اور دنیا سے محبت کی کیفیت وہ ہے جو سورۃ البقرۃ میں یہود کی بیان ہوئی:
وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ (البقرۃ:۹۶)

کہ ان میں سے ہر ایک کی بڑی خواہش ہے کہ زندگی طویل ہو جائے‘ ایک ہزار برس تک وہ اس دُنیا میں جی سکیں اور یہاں کا لطف اٹھا سکیں‘ ان کی اصل کیفیاتِ باطنی تو یہ ہیں‘ دعویٰ کر رہے ہیں خدا کی محبت کا اور خدا کے محبوب ہونے کا.
یہ ہے وہ پریکٹیکل ٹیسٹ جو اُن کے سامنے رکھ دیا گیا کہ اس پر اپنے آپ کو پرکھو. آیت کے اگلے ٹکڑے میں ارشاد ہوتا ہے: 

وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ 

’’اور یہ ہرگز ہرگز تمنا نہیں کر سکتے موت کی‘ بسبب اس کمائی کے جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجی ہوئی ہے‘‘.
سورۃ القیامۃ میں ہم پڑھ آئے ہیں : 
بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ کہ انسان کو خوب معلوم ہو تاکہ وہ کہاں کھڑا ہے‘ کتنے پانی میں ہے. وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾ خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں اور کتنے ہی بہانے تراش لے اور خواہ وہ اپنی استدلالی قوت سے اعتراض کرنے والوں کی زبانیں بند کرا دے‘ لیکن اس سب کے باوجود اس کا ضمیر اسے بتا رہا ہوتا ہے کہ تم حقیقت میں کیا ہو چنانچہ صاف فرما دیا کہ یہ یہود اگرچہ خود کو اللہ تعالیٰ کا لاڈلا اور چہیتا قرار دیتے ہیں‘ لیکن جو کچھ یہ اپنے ہاتھوں سے آگے بھیج چکے ہیں‘ جو کمائی انہوں نے کی ہے آخرت کے نقطۂ نگاہ سے‘ اس کے پیش نظر یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کر سکتے. وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷﴾ ’’اور اللہ ظالموں سے بخوبی باخبر ہے‘‘. 
اگلی آیت میں یہ مضمون اپنی منطقی انتہا کو پہنچ رہا ہے. فرمایا: 
قُلۡ اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِیۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیۡکُمۡ کہ (اے نبیؐ ) ان سے کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو‘ جس سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی. کتنا ہی بھاگو‘ کتنا ہی اس سے پہلو بچانے کی کوشش کرو‘ وہ سامنے آ کھڑی ہو گی. ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اس ہستی کی طرف کہ جو کھلے اور چھپے سب کا جاننے والا ہے فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۸﴾ پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے.

اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان آیات میں خطاب اگرچہ یہود سے ہے‘ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا تھا ان سورتوں میں اصل تخاطب اُمت مسلمہ سے ہے‘ ساری بات مسلمانوں سے ہو رہی ہے ؎

خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں 

اصل میں اُمت مسلمہ کو گویا پیشگی طور پر متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے اندر اگر عملی اضمحلال آئے گا ‘ اپنے دینی مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے تم اگر پہلوتہی کرو گے تو اس کا اصل سبب یہ ہو گا کہ تمہیں یہ زعم لاحق ہو جائے گا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں‘ ہم ا س کے محبوبوں کی اولاد میں سے ہیں. یہ زعم ہے جو تمہیں عمل سے دور کرتا چلا جائے گا اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم دنیا پرستی میں غرق ہوتے چلے جاؤ گے. دنیا ہی تمہارا مطلوب و مقصود بنتی چلی جائے گی اور دوسرے یہ کہ موت کا خوف رفتہ رفتہ تم پر مسلط ہو جائے گا.