نبی اکرم نے خبر دی تھی کہ اے مسلمانو! ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے دعوت کا اہتمام کرنے والا کوئی شخص دستر خوان کے چنے جانے کے بعد مہمانوں سے کہتا ہے کہ آیئے تشریف لایئے‘ کھانا تناول فرمایئے! اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حیران ہو کر پوچھا کہ مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنَ یَوْمَئِذٍ؟ حضور! کیا اس زمانے میں ہماری تعداد بہت کم رہ جائے گی؟ نبی اکرم نے فرمایا: نہیں! بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ تعداد تو تمہاری بہت ہو گی‘ نوے کروڑ‘ ایک ارب اور نمعلوم کتنی!لیکن تمہاری حیثیت جھاگ سے زیادہ نہ ہو گی کہ جیسے کسی جگہ اگر سیلاب آ جائے تو سیلاب میں پانی کے ریلے کے اوپر کچھ جھاڑ جھنکار ہوتا ہے‘ کچھ جھاگ ہوتا ہے وَلٰــکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغْثَاءِ السَّیْلِ اس سے زائد تمہاری حیثیت نہیں ہو گی‘ دنیا میں تمہاری اہمیت اس سے بڑھ کر نہ رہے گی. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پھر سوال کیا کہ حضور! ایسا کیوں ہو جائے گا؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارے اندر ایک بیماری پیدا ہو جائے گی جس کا نام ’’وہن‘‘ ہے. سوال کیا گیا: ’’مَا الْوَھْنُ یَا رَسُوْلَ اللہِ‘‘ کہ حضورؐ ! وہ وہن کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت یہ بیماری جب تم میں پیدا ہو جائے گی‘ جب دنیا تمہاری محبت کا مرکز بن جائے گی اور موت سے تم دور بھاگنے لگو گے تو بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود تم اقوامِ عالم کے لیے لقمۂ تر بن جائو گے لیکن ظاہر بات ہے کہ کوئی اپنی درازیٔ عمر کے باعث اللہ کی پکڑ سے بہرحال بچ نہیں سکے گا ‘ اسے بالآخر اپنے ربّ کی طرف لوٹنا ہی ہو گا اور وہاں اس کا حساب چکا دیا جائے گا.

یہاں اس سورۂ مبارکہ کا دوسرا حصہ مکمل ہوا جو چار آیات پر مشتمل ہے. ان میں ذکر اگرچہ سابقہ اُمت مسلمہ یہود کا ہے‘ لیکن اصلاً یہ ایک آئینہ ہے کہ جس میں نئی اُمت مسلمہ کو آئندہ کی تصویر دکھائی جا رہی ہے کہ جیسے وہ حاملِ کتاب بنائے گئے تھے اس طرح تم بھی حامل قرآن بنائے جا رہے ہو‘جیسے وہ وارثِ کتاب بنے تھے ویسے ہی تم بھی وارثِ کتاب بنائے گئے ہو‘ دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ جو معاملہ انہوں نے کیا تھا تم بھی قرآن کے ساتھ وہی سلوک کرنے لگو!! یہ ہے درحقیقت اس سورۂ مبارکہ کے پہلے حصے اور دوسرے حصے کے مابین ربط و تعلق. چونکہ انقلابِ محمدیؐ کا آلہ قرآن حکیم ہے اور حضور کی بعثت قیامت تک آنے والی پوری نوع انسانی کے لیے 
ہے‘ لہذا جس عمل کو حضور نے جاری رکھا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ اور جس کی بنیاد پر ایک ہمہ گیر انقلاب جزیرہ نمائے عرب میں برپا کر دیا‘ اسی عمل کو جاری رکھنا اور آگے چلانا اُمت کی ذمہ داری ہے.

اس کے لیے اساسی منہاج وہی ہو گا جو نبی اکرم نے اختیار کیا‘ جس میں مرکز و محور کی حیثیت قرآن حکیم کو حاصل تھی. یہاں سورۃ الجمعہ کا پہلا رکوع ختم ہوا.