نہ دے سکے کہ بڑی سے بڑی چیز کو ایک رسم بنا کر رکھ دینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے نتیجہ یہ ہے کہ اعمال کی محض صورت اور شکل باقی رہ جاتی ہے اور اس کی روح غائب! یہ بات نظروں کے سامنے رہتی ہی نہیں کہ وہ عمل کس لیے تھا‘ اس کا مقصد کیا تھا؟ بس عمل کی ظاہری صورت باقی رہتی ہے اور اس کی حیثیت ایک رسم (Ritual) سے زیادہ نہیں ہوتی ؎
رہ گئی رسم اذاں رُوحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی!

اسی طرح کا معاملہ اجتماعِ جمعہ کا ہے. آج اس گئے گزرے دَور میں بھی مسلمانوں میں ابھی کثیر تعداد میں وہ لوگ موجود ہیں جو جمعہ کے لیے بڑے اہتمام سے تیار ہو کر آتے ہیں‘ نہا دھو کر‘ اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر‘ خوشبو لگا کر آتے ہیں‘ لیکن یہ بات بالعموم پیشِ نظر نہیں ہوتی کہ اس نظامِ جمعہ کا اور اس سب اہتمام کا حاصل کیا ہے‘ اس کی غرض و غایت کیا ہے‘ اس کی حکمت کیا ہے!اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اس جمعہ کی اصل اہمیت خطبہ جمعہ کی وجہ سے ہے‘ ورنہ جمعہ کی نماز میں فرض رکعتوں کی تعداد نمازِ ظہر سے بھی نصف رہ جاتی ہے جس کا کہ وہ قائم مقام بنتی ہے. نماز ظہر کی چار رکعتیں ہیں جب کہ نمازِ جمعہ میں کل دو رکعات فرض شامل ہیں. گویا نماز کی رکعتوں کی تعداد کم ہو گئی. جمعہ کو جس چیز نے ’’جمعہ‘‘ بنایا ہے وہ خطبہ جمعہ ہے ‘ اور خطبہ جمعہ کی غرض و غایت کیا ہے‘ اسے مسلم شریف کی ایک روایت کے حوالے سے سمجھئے کہ حضور خطبہ جمعہ میں کیا کیا کرتے تھے؟ ’’کَانَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَءُ الْقُرْآنُ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ‘‘ ’’ آپ قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے اور لوگوں کو تذکیر فرماتے تھے‘‘ یاد دہانی کیا کرتے تھے. یہ تذکیر بالقرآن وہی ہے جس کا ذکر سورۂ ق کی آخری آیت میں آیا ہے: فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ یعنی ’’اے نبی! اس قرآن کے ذریعے سے تذکیر فرمایئے (اور یاد دہانی کراتے رہیے) ہر اُس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘.