یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ ہر انقلابی جماعت کے لیے اس طرح کے اجتماعات کا اہتمام کرنا ایک لازمی امر ہے. ہر انقلابی گروہ یا جماعت کا کوئی نہ کوئی لٹریچر ہوتا ہے جو اس کے اساسی افکار و نظریات پر مشتمل ہوتا ہے اور کسی بھی انقلابی گروہ یا جماعت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے اساسی لٹریچر کے ساتھ اپنے ذہنی ربط و تعلق کو برقرار رکھے اور اس لٹریچر کے ذریعے وقتاً فوقتاً اپنے افکار و نظریات کو تازہ کرتی رہے. مختلف جماعتیں اسی غرض سے ہفتہ وار اجتماعات کا اہتمام کیا کرتی ہیں. مسلمان بھی دراصل ایک نظریاتی گروہ کے افراد ہیں. اس گروہ یا اُمت کے سامنے ایک عظیم مشن ہے‘ فرائض رسالت کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی اُمت کے کاندھوں پر آئی ہے‘ انقلابِ نبویؐ کی عالمی سطح پر تکمیل اُمت کا مشن قرارپایا ہے اور اس انقلابی جماعت کا لٹریچر ہے قرآن مجید.ان کے فکر کو تازہ کرنے اور ان کے نقطۂ نظر کو صحیح رکھنے کے لیے اس ابدی لٹریچر کی پیہم اور مسلسل تعلیم کا نظام جاری کر دیا گیا خطبہ جمعہ کی شکل میں. اس خطبے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فرمایا گیا کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو ایک دوسے سے کلام نہ کرو‘ یہاں تک کہ دورانِ خطبہ اگر تم نے اپنے ساتھی سے یہ کہا کہ خاموش رہو تو اتنا کہنا بھی ایک ناپسندیدہ حرکت ہے . اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ اَنْصِتْ فَقَدْ لَغَوْتَ کہ اگر کسی نے کوئی لغو حرکت کی کہ دوران خطبہ بولنا شروع کر دیا اور تم نے اس سے کہا کہ ’’چپ ہو جاؤ‘‘تو تم نے بھی ایک لغو حرکت کا ارتکاب کیا. پوری خاموشی کے ساتھ ہمہ تن متوجہ ہو کر سنو. اللہ کے پاک کلام کی جو تعلیم و تلقین ہو رہی ہے اور اس کے ذریعے سے جو تذکیر و نصیحت کا عمل خطبے کی صورت میں جاری ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ!
خطبۂ جمعہ کی اہمیت کا اندازہ حضورﷺ کے اس فرمان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب خطبے کا آغاز ہو جاتا ہے تو وہ فرشتے کہ جو مسجد کے دروازوں پر بیٹھے آنے والوں کی حاضری کا اندراج کر رہے ہوتے ہیں‘ اپنے صحیفے اور رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور وہ خود ہمہ تن خطبے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں. معلوم ہوا کہ جمعہ میں صرف وہی لوگ حاضر شمار ہوتے ہیں جو وقت پر آئیں اور مکمل خطبے کی سماعت کریں. ہمارے ہاں صورتِ حال یہ ہے کہ اوّل تو وہ خطبہ عربی زبان میں ہے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ عزبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم!اس کی تلافی کے لیے اگر تقریروں اور وعظوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تو بڑے دکھ کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان تقریروں میں اور سب کچھ ہوتا ہے سوائے قرآن کے!اس میں سیاست پر بات ہو گی‘ فرقہ واریت پر گرما گرم گفتگو ہو گی‘ اس میں کہانیاں ہوں گی‘ لطیفے بیان ہوں گے‘ نہیں ہو گا تو بس قرآن نہیں ہو گا جس کے لیے یہ سارا نظام تجویز کیا گیا! جس کے لیے یہ سارا ککھیڑ مول لیا گیا ہے!
یہ ہے حکمت و احکامِ جمعہ کا مضمون جو اس سورۂ مبارکہ میں بڑی جامعیت کے ساتھ آیا ہے. جمعہ سے متعلق احکام دوسرے رکوع میں وارد ہوئے اور اس کی حکمت کا بیان گویا پہلے رکوع میں ہو گیا کہ وہی نبوی عمل جس کا بیان چار اصطلاحات کی صورت میں ہوا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ اس کو دوام اور تسلسل عطا کر دیا گیا خطبہ جمعہ کی شکل میں. بلاشبہ یہ تعلیم بالغاں کا ایک عظیم نظام ہے. چشمِ تصور سے دیکھئے آج اس گئے گزرے دَور میں بھی لاکھوں انسان جمعہ کے لیے بڑے اہتمام سے تیار ہوکر آتے ہیں ؏ ’’کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی‘‘. افسوس کہ یہ عظیم عمارت فی الواقع اب کھنڈر بن چکی ہے. اس کی حکمت اور اس کی غرض و غایت ہمارے پیش نظر ہی نہیں رہی‘ جمعہ اب ہمارے ہاں بس ایک رسم بن کر رہ گیا ہے اور اس کو رسم کی حیثیت سے ادا کرنے والے آج بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں. لیکن ہماری کوتاہی کے باعث اس سے وہ مقصود حاصل نہیں رہا جو کہ اس مبارک عبادت سے حاصل ہونا چاہیے.