اس سے پہلے کہ سورۃ المنافقون کی آیات کا سلسلہ وار مطالعہ شروع کیا جائے‘ مناسب ہو گا کہ پہلے اصولاً یہ سمجھ لیا جائے کہ نفاق اصل میں ہے کیا! گویا کہ اب چند باتیں حقیقت نفاق سے متعلق عرض کی جائیں گی.
نفاق کے بارے میں یہ بات تو معلوم اور معروف ہے کہ منافق اسے کہتے ہیں جس کے دل میں ایمان نہ ہو لیکن وہ ایمان کا مدعی اور ایمان کا دعوے دار ہو‘ گویا وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل کراتا ہو‘ حالانکہ اس کا دل نورِ ایمان سے خالی ہو. یہ بات یقینا صحیح ہے‘ لیکن اس کے بارے میں یہ عام تصور جو لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ منافق صرف وہی ہوتا ہے کہ جو ابتداء ہی سے دھوکہ اور فریب کی نیت کے ساتھ اسلام میں داخل ہو‘ گویا کہ اسے کبھی ایمان کی کوئی رمق سرے سے نصیب ہی نہ ہوئی ہو‘ یہ بات پورے طور پر درست نہیں ہے. اس نوع کے منافق بھی یقینا پائے جاتے تھے لیکن ایسا معاملہ بہت کم تھا. قرآن مجید میں یہود کی ایک سازش کا ذکر ہے کہ جب ان کی ساری مخالفتوں کے علی الرغم اور تمام تر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باوجود مدینے میں اسلام کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئیں اور نبی اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں تمکن عطا فرما دیا تو انہوں نے اسلام کی قوت کو کمزور کرنے کے لیے ایک تدبیر سوچی.
انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی یہ ساکھ عرب معاشرے میں قائم ہو چکی ہے کہ جو شخص ایک بار ایمان لے آتا ہے وہ واپس نہیں پھرتا‘ چاہے ایمان قبول کرنے کے نتیجے میں اسے کتنی ہی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں اور کیسی ہی مصیبتیں جھیلنی پڑیں. اس ساکھ کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ صبح کے وقت ایمان لانے کا اعلان کرو اور شام کو انکار کر دو اور مرتد ہو جاؤ‘ اپنے سابق دین میں واپسی کا اعلان کر دو. اس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ کچھ اور لوگ بھی لوٹ آئیں ‘ اپنے آبائی دین کی طرف پلٹ آئیں. عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ آخر یہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے‘ اندر جا کر انہوں نے ضرور کوئی ایسی غیر متوقع بات دیکھی ہو گی جس سے بدک کر یہ لوگ واپس لوٹ آئے‘ ممکن ہے جس اُمید میں یہ اسلام میں گئے تھے اس کے برعکس کوئی صورت وہاں نظر نہ آئی ہو کہ انہیں لوٹنا پڑا!… ایمان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے یہود نے یہ تدبیر اختیار کی. اب ظاہر بات ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ جو شخص بھی اسلام کے دائرے میں داخل ہوا اس نے اگرچہ کلمۂ شہادت زبان سے ادا کیا ہو گا لیکن اس کا یہ داخلہ ابتداء ہی سے دھوکے کے تحت ہے‘ ایمان کی کوئی رَمق اسے کسی ایک لمحے کے لیے بھی حاصل نہیں ہوئی. ایسے کسی شخص نے ایک آدھا دن یا چند دن اگر اس قانونی اسلام کی کیفیت میں بسر کیے تو یقینا ایک خالص منافق کی حیثیت سے بسر کئے ہیں.
اس نوع کا معاملہ بعد میں بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص مسلمانوں میں جاسوس کی حیثیت سے شامل ہونے کے لیے اسی قسم کے کسی انداز میں اسلام میں داخل ہو‘ اور کلمۂ شہادت زبان سے ادا کرے تو ایمان سے یکسر محروم ہونے کے باوجود بھی قانونی طور پر وہ مسلمان سمجھا جائے گا. اور ایسا شخص تو ظاہر بات ہے کہ شعائرِ دینی کا احترام بھی عام مسلمان سے زیادہ کرے گا‘ اپنے آپ کو مسلمان منوانے کے لیے وہ نمازیں بھی پڑھے گا‘ روزے بھی رکھے گا‘ لیکن اس شخص کے قلب کی کیفیت کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ ایک لحظہ کے لیے بھی اسے کبھی ایمان کی روشنی نصیب نہیں ہوئی. تو اگرچہ اس نوع کا نفاق بھی دورِ نبویؐ میں موجود تھا لیکن اکثر و بیشتر جس قسم کے نفاق کا ذکر ہمیں قرآن مجید میں ملتا ہے اس کی نوعیت اس سے مختلف تھی.