اس نفاق کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے جو دورِ نبویؐ میں بالعموم پایا جاتا تھا اور جس کا قرآن حکیم میں کثرت سے ذکر ملتا ہے‘ یہ بات پیش نظر رکھیے کہ انسان اپنی قوتِ ارادی کے اعتبار سے مختلف کیفیات اور مختلف درجوں کے ہوتے ہیں. ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی نظریے یا مسلک کو ہرچہ بادا باد کی سی شان کے ساتھ قبول کرتے ہیں
؏ ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم
کہ ہم نے کشتی دریا میں ڈال دی ہے اب جو ہو سو ہو. طارق بن زیادؒ نے جس کی انتہائی مثال قائم کی کہ
؏ طارق چو بر کنارۂ اندلس سفینہ سوخت
ساحل اندلس پر پہنچ کر کشتیاں جلا ڈالیں کہ واپسی کا دھیان بھی کبھی نہ آئے. اس مزاج کے حامل لوگ ہر دَور میں دنیا میں موجود رہے ہیں‘ کبھی کم اور کبھی زیادہ‘ لیکن ایک دوسرے مزاج کے لوگ بھی دنیا میں رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جنہیں ہم کمزور طبائع کے حامل لوگ یا ضعیف قوتِ ارادی کے مالک لوگ قرار دیتے ہیں کہ ایک خاص راستے پر چلنا چاہتے ہیں‘ لیکن اپنی کم ہمتی کے باعث چل نہیں پاتے. اس راہ میں درپیش مشکلات و موانع اور سختیوں اور آزمائشوں کے مقابلے میں قدم قدم پر ان کی ہمتیں جواب دیتی نظر آتی ہیں‘ ان کا جوشِ عمل سرد پڑتا ہے‘ وہ آگے بڑھنے کے بجائے کسی ایک مقام پر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں یا کبھی لوٹنے کے ارادے سے چند قدم پیچھے ہٹتے ہیں تو پھر اگر کوئی آسان صورت حال سامنے آئے تو دوچار قدم آگے بڑھا لیتے ہیں‘ حالات کی سختی اگر برقرار رہے تو بالآخر ان میں سے بعض کے قدم پیچھے ہی ہٹتے چلے جاتے ہیں. یہ دونوں طبائع ہمیشہ پائی گئی ہیں اور آئندہ بھی پائی جائیں گی.
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ مَکی دَور میں جو لوگ ایمان لائے ان کی غالب اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی حقانیت کو پوری طرح قلبی و ذہنی طور پر تسلیم کرنے کے بعد ایمان لائے تھے. کلمۂ شہادت زبان سے ادا کرنے سے پہلے ہی وہ ہر مصیبت کو جھیلنے کے لیے آمادہ اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو چکے ہوتے تھے. اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ ادھر ہم نے یہ الفاظ زبان سے نکالے اُدھر مصیبتوں کے پہاڑ ہم پر ٹوٹ پڑیں گے‘ گھر میں اور گھر کے باہر ہر جگہ مشکلات‘ تکالیف اور تشدد (persecution) کا سامنا ہو گا‘ لہذا جو آتا خوب سوچ سمجھ کر اسلام کی طرف آتا. لیکن یہ صورت حال بعد میں برقرار نہ رہی. مدنی دَور کے ابتدائی دو ایک سال کے بعد حالات تیزی سے بدلنے لگے. مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو تمکن فی الارض یعنی غلبہ عطا فرمادیا‘ اوس اور خزرج ہی مدینہ کے دو بڑے قبیلے تھے‘ دونوں ایمان لے آئے‘ گویا آپؐ مدینہ منورہ کے بے تاج بادشاہ ہو گئے. اب یہ بات نہیں رہی کہ جو ایمان لائے اس کو شدائد اور مصائب سے سابقہ پیش آتا ہو‘ لہذا کچھ کمزور طبائع نے بھی ہمت کی اور حالات کو سازگار دیکھتے ہوئے اسلام قبول کر لیا.
واضح رہے کہ یہ لوگ بھی اسلام کی دعوت سے متأثر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے ‘ ان کے دل نے بھی یہ گواہی دی ہو گی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کی تعلیمات انسانی فطرت کی شہادتوں سے ہم آہنگ ہیں‘ اس لیے کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی توحید کا اقرار کرنا فطرتِ انسانی میں شامل ہے. اسی طور پر فطرتِ انسانی اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے اور عقل اس حقیقت کو قبول کرتی ہے کہ اعمالِ انسانی کے بھرپور نتائج نکلنے چاہئیں‘ میزانِ عدل نصب ہونی چاہیے اور اس کے مطابق جزا و سزا ہونی چاہیے. حشر و نشر اور جنت و دوزخ ان سب حقیقتوں کو ذہن قبول کرتا ہے. اسی طرح نبی اکرمﷺ کی سیرت و کردار اور ایک خورشید تاباں و درخشاں کی مانند آپؐ کی شخصیت بھی لوگوں کے سامنے تھی اور آپؐ کی حقانیت کی گواہی بھی لوگوں کے دل کی گہرائیوں سے پھوٹتی تھی‘ چنانچہ لوگ آئے‘ ایمان قبول کر لیا. لیکن جیسے جیسے ایمان کے عملی تقاضے سامنے آنے لگے‘ جان اور مال کھپانے کے مطالبے شدت پکڑنے لگے تو ضعیف الارادہ اور کم ہمت لوگوں کے لیے اسلام اور ایمان کے راستے پر چلنا مشکل ہو تا گیا. سورۃ الصف کی آخری آیت ذہن میں لایئے! اللہ کے دین کے غلبے کے لیے نبی اکرمﷺ کی نصرت کا مطالبہ کس زوردار انداز میں آیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ
اللہ کی راہ میں جان و مال کھپانے کے پرزور مطالبے پر مبنی سورۃ الصف کی آیات ۱۰ اور ۱۱ کو بھی ذہن میں لایئے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ
اور پیچھے چلیے‘ سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں ہم پڑھ آئے ہیں جس میں جہاد فی سبیل اللہ کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾
یہ تقاضے نہایت کٹھن ہیں‘ جان اور مال دونوں انسان کو بہت عزیز ہیں‘ بلکہ بسا اوقات انسان کا مزاج یہ بن جاتا ہے کہ جان چلی جائے‘ مال نہ جائے. چنانچہ ایسے کمزور طبائع کے حامل لوگوں کو دُنیا اور اس کی آسائشیں چھوڑ کر جہاد و قتال کے راستے پر جانا بہت دشوار معلوم ہوتا‘ بقول جگر مراد آبادی :
تپتی راہیں مجھ کو پکاریں
دامن پکڑے چھاؤں گھنیری