ایسے لوگوں کے لیے سورۃ الحج میں بڑی پیاری تشبیہہ وارد ہوئی ہے. فرمایا: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ کہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کنارے رہ کر اللہ کی بندگی کرنا چاہتے ہیں. ایک وہ ہے جو ہرچہ بادا باد کا نعرہ لگا کر منجدھار میں کودنے کے لیے آمادہ ہیں اور ایک وہ ہے جو کنارے کنارے چلنا چاہتا ہے‘ اپنی جان اور مال کو بچا کر رکھنا چاہتا ہے‘ اگرچہ ؎ 

آسودۂ ساحل تو ہے مگر شاید یہ تجھے معلوم نہیں
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں

کے مصداق کنارے پر بھی انسان پر کوئی مصیبت آ سکتی ہے. لیکن بہرحال منجدھار کے مقابلے میں دریا کا کنارہ آرام و آسائش اور عافیت کا ایک گوشہ ہے. اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ کہ اگر اسے خیر پہنچتا رہے‘ سہولتیں میسر رہیں تو مطمئن رہتا ہے وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ اور اگر کوئی آزمائش آپڑی‘ کوئی کٹھن مرحلہ درپیش ہوا یا جان اور مال کے لگانے کا کوئی تقاضا سامنے آیا تو پھر وہ اوندھے منہ گر کر رہ جاتا ہے. فرمایا: خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ یہ دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے. ایسے شخص کی دنیا بھی برباد ہوئی اور آخرت بھی. ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۱﴾ یہ ہے واضح اور صریح خسارہ.

یہی مضمون سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع میں بھی آیا ہے. وہاں تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہوا ہے. ایک وہ متقی اور خدا ترس لوگ جو قرآن حکیم سے صحیح طور پر استفادہ کرنے کے اہل ہیں. دوسرے وہ لوگ جن کی مسلسل ہٹ دھرمی اور ضد کے 
باعث ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں اور قرآن کی ہدایت اب ان کے حق میں قطعاً مفید نہیں. تیسرا طبقہ ان دونوں کے بین بین ہے. آیت ۸ میں ان کا تذکرہ ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مدّعی ہیں اس بات کے کہ ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور یومِ آخر پر درانحالیکہ وہ فی الواقع مؤمن نہیں ہیں. ذرا آگے چل کر اسی دوسرے رکوع میں ان کے لیے ایک تمثیل بیان کی گئی: 

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿٪۲۰﴾ 

یہ ایک مرکب تمثیل ہے. رات کا وقت ہے‘ موسلا دھار بارش ہو رہی ہے‘ بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کی کڑک اور چمک نے ماحول کو ہیبت ناک بنا دیا ہے‘ کچھ کم ہمت اور بزدل لوگ اس طوفان میں گھرے ہوئے ہیں. کڑک سے ان کی جان نکلی جا رہی ہے. اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے ہوئے وہ خوف و دہشت کی تصویر بنے کھڑے ہیں. جیسے ہی بجلی کی چمک سے ماحول تھوڑی دیر کے لیے منور ہوتا ہے تو وہ ہمت کر کے دوچار قدم آگے بڑھ جاتے ہیں. اور جب ماحول پھر تاریک ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.