اس تمثیل میں ایک خاص انسانی کردار کا مکمل نقشہ موجود ہے. حالات سازگار اور موافق ہوئے تو ایمان اور اسلام کے راستے پر چلتے رہے‘ لیکن جب آزمائش کا وقت آیا‘ جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کی کڑک اور گھن گرج سنائی دی‘ جان و مال کے ایثار کا کٹھن مطالبہ سامنے آیا تو ٹھٹھک کر کھڑے ہو گئے‘ کمر ہمت ٹوٹ کر رہ گئی. یہ کیفیت درحقیقت مرضِ نفاق کا آغاز ہے. یہ اس مہلک مرض کاstarting point ہے. البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کیفیت کے ابتدائی مراحل کو قرآن نفاق قرار نہیں دیتا. نفاق سے پہلے ایک منزل ضعف ایمان کی ہے کہ ایمان ابھی اس درجے پختہ نہیں ہوا کہ انسان کا عمل پورے طور پر اس کے تابع ہو سکے.
چنانچہ عمل میں بھی کمی اور کوتاہی کا صدور ہوتا رہتا ہے‘ لیکن ضعفِ ایمانی کی اس کیفیت کا یہ ایک لازمی امر ہے کہ انسان اپنی خطا کا اعتراف کرتا ہے‘ جھوٹے بہانے نہیں بناتا بلکہ اپنی غلطی اور کوتاہی کو صاف تسلیم کر لیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے‘ نبیﷺ سے بھی معذرت کرتا ہے اور استدعا کرتا ہے کہ میرے لیے اللہ سے استغفار کیجیے. جب تک یہ صورت برقرار رہے اسے نفاق نہیں کہا جائے گا بلکہ اسے ضعفِ ایمان سے تعبیر کیا جائے گا. لیکن اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالنے لگے‘ جھوٹے بہانوں کو اپنی بے عملی کے لیے آڑ اور ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے ‘ تو یہاں سے یوں سمجھئے کہ نفاق کی سرحد شرو ع ہو گئی‘ مرضِ نفاق کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو گیا.