تیسرا مرحلہ اس کے بعد ہے‘ لیکن اسے سمجھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی حقیقت کا جاننا بہت ضروری ہے. یہ ایک عام نفسیاتی حقیقت ہے کہ اگر آپ عمل کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہوں تو وہ لوگ آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے جو اپنی ہمت کی بدولت آپ سے آگے نکل گئے ہوں. آپ کی خواہش یہ وگی کہ وہ بھی پیچھے رہ جائیں‘ اس لیے کہ ان کے آگے بڑھنے نے ہماری کمزوری کو مزید نمایاں کر دیا. اگر ہم سب کے سب کھڑے رہ جاتے اور کوئی بھی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ نہ کرتا تو سب کے سب ایک ہی درجے میں آ جاتے.

نتیجتاً اس سے ان کم ہمت لوگوں کے دلوں میں ان مؤمنین و صادقین کے لیے جو غلبہ وا قامت ِ دین کے لیے جان اور مال کی بازیاں کھیل رہے ہوتے ہیں‘ نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں. ان لوگوں کے خلاف دشمنی کے جذبات سینوں میں پروان چڑھنے لگتے ہیں جو ایمان کے تقاضوں کے جواب میں آگے بڑھ کر اس شان سے لبیک کہنے والوں میں ہوں کہ اگر مال کا مطالبہ ہے تو جو میسر ہے حاضر ہے‘ جان کا تقاضا ہے تو سربکف حاضر ہیں. سچے اہل ایمان اور ان کی سرفروشیوں کے خلاف اگر یہ احساسات اور جذبات پیدا ہونے لگیں تو جان لیجیے کہ یہ مرضِ نفاق کی وہ تیسری اور آخری منزل ہے جو ناقابل علاج ہے. اب اس مرض سے رستگاری کی کوئی صورت موجود نہیں! تو یہ ہے درحقیقت نفاق کا نقطۂ آغاز‘ اس کا اصل سبب اور اس مہلک مرض کے مختلف مراحل و مدارج . اللہ تعالیٰ ہمیں نفاق کی ہر صورت سے محفوظ رکھے. آمین!