یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ نفاق کے لفظی معنی کیا ہیں! جیسا کہ کئی مرتبہ عرض کیا جا چکا ہے‘ اکثر عربی الفاظ کا ایک سہ حرفی مادہ ہوتا ہے. لفظ نفاق کا مادہ ’’ن ف ق‘‘ ہے. عربی زبان میں اس کے دو بنیادی لغوی استعمالات ہیں اور دونوں کے اعتبار سے قرآن مجید کی دو بالکل مختلف اصطلاحات وجود میں آئی ہیں‘ اگرچہ ان دونوں میں ایک بڑا لطیف ربط ہے‘ جس کی طرف بعد میں اشارہ ہو گا.’’نَفَقَ الْفَرَسُ‘‘ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بولا جاتا ہے کہ گھوڑا مر گیا‘ جیسے ہم کہتے ہیں مر کھپ گیا ’’نَفَقَتِ الدَّرَاھِمُ‘‘ کا معنی ہے پیسے ختم ہو گئے. اسی مادہ سے باب اِفعال میں لفظ ’’اِنفاق‘‘ بنا ہے‘ یعنی خرچ کر دینا‘ کھپا دینا‘ لگا دینا. انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم ہو گا اللہ کی راہ میں لگا دینا‘ کھپا دینا‘ خرچ کر دینا‘ صَرف کر دینا. ہمارے اس منتخب نصاب میں یہ لفظ سورۃ التغابن میں آ چکا ہے:وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ ’’اور خرچ کرو‘ اسی میں تمہارے لیے بہتری ہے‘‘. یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور لگا دینا ہی تمہارے حق میں خیر اور بھلائی ہے. اور اس ضمن میں تعلیم دی گئی کہ اپنا بہتر سے بہتر مال خرچ کرو : لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ کہ تم نیکی کو حاصل نہ کر سکو گے‘ مرتبۂ بر تک نہ پہنچ پاؤ گے جب تک کہ خرچ نہ کرو وہ چیز جو تمہیں محبوب ہے. اور فرمایا گیا کہ جب تک کہ جی کے اس لالچ سے رستگاری حاصل نہ کر و گے فلاح نہ پاؤ گے.سورۃ التغابن میں انفاق کے حکم کے فوراً بعد فرمایا: وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾ ’’اور جو کوئی جی کے اس لالچ سے بچا لیا گیا تو فلاح تک پہنچنے والے صرف وہی لوگ ہیں‘‘. چنانچہ یہ اصطلاح ’’انفاق‘‘ ہے جو ’’ن ف ق‘‘ کے مادے سے اخذ کی گئی ہے.
اب اسی مادے سے اخذ کردہ دوسری اصطلاح کی طرف آیئے! ’’نَفَق‘‘ بطورِ اسم ایک اور معنی میں آتا ہے. اس کے معنی ہیں ’’سرنگ‘‘. چنانچہ سورۃ الانعام میں یہ لفظ بایں طور آیا ہے:
وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ (آیت ۳۵)
کہ اے نبیؐ ! یہ کفار و مشرکین آپ سے جس قسم کے حسی معجزات کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اللہ کی حکمت ان کے ظہور کی متقاضی نہیں ہے‘ اللہ کا فیصلہ ہے کہ اس قسم کے معجزات ان کو نہیں دکھائے جائیں گے لیکن بالفرض اگر آپ پر ان کا یہ اعتراض و انکار بہت شاق گزر رہا ہے تو اگر آپ کے لیے ممکن ہے تو کہیں زمین میں سے کوئی سرنگ لگا کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر ان کی مطلوبہ نشانیوں میں سے کوئی نشانی انہیں لا کر دکھا دیجیے!اسی ’’ن ف ق‘‘ سے ایک اور لفظ بنا ہے. عربی زبان میں ’’نافقاء‘‘ گوہ کے بل کو کہتے ہیں . اللہ تعالیٰ نے ہر ذی حیات کو کچھ نہ کچھ شعور بخشا ہے. گوہ ایک حقیر سا جانور ہے‘ لیکن اس میں اپنے تحفظ کا مادہ اتنا قوی ہے کہ وہ اپنا بل سرنگ کی مانند بناتا ہے جس کے دو مُنہ ہوتے ہیں‘ تاکہ اگر کوئی شکاری کتا کسی ایک رخ سے داخل ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے مُنہ سے نکل بھاگے اور اگر اُدھر سے کوئی خطرہ ہو تو اِدھر سے نکلنے کی کوئی سبیل رہ جائے. یہی لفظ منافقت کی لغوی اصل ہے جس پر کہ قرآن مجید کی یہ اصطلاح مبنی ہے.