سرسری مفہوم میں منافق وہ ہے جس کے دو رُخ ہیں. وہ ایمان سے بھی ایک تعلق رکھتا ہے اور کفر سے بھی. چنانچہ منافقین کے بار ے میں فرمایا گیا:

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (البقرۃ) 

’’ کہ جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی صاحب ِ ایمان ہیں ‘ ہم بھی ایمان لائے ہیں. اور جب اپنے شیطانوں یعنی اپنے سرغنوں سے ملتے ہیں تو اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں‘ مسلمانوں سے تو ہم استہزاء کر رہے ہیں‘ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ ہمارا ایمان کا دعویٰ محض تمسخر اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں‘‘.

منافقین کی اس نفسیاتی کیفیت کو سورۃ النساء میں اس طرح بیان فرمایا گیا :

مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ (آیت ۱۴۳
’’ کہ یہ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں‘ معلق ہو کر رہ گئے ہیں‘ نہ اِدھر یکسو ہیں نہ اُدھریکسو.‘‘

یہ دو رُخا پن اور دو جانب تعلق رکھنے کا طرزِ عمل دراصل انسان اپنے تحفظ‘ اپنی جان او رمال کے بچاؤ اور اپنی دنیا کو کسی نہ کسی طور سے بچا لینے کے لیے اختیار کرتا ہے کہ کسی طرف بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر 
identify نہ کرے. ایک وابستگی کا وہ انداز ہوتا ہے کہ اگر یہ کشتی تیرتی ہے تو ہم تیریں گے‘ ڈوبتی ہے تو ہم بھی ساتھ ہی ڈوبیں گے . اور ایک وہ رویہ ہے کہ ہمیں تو بہرصورت اپنا تحفظ کرنا ہے‘ لہذا کشتیاں جلانی نہیں ہیں. ہو سکتا ہے کہ ان کا پلڑا بھاری ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کو بالادستی حاصل ہو جائے‘ لہذا دونوں سے بنا کر رکھو.

یہ تو ہوا اُس دو رُخے پن کا وہ ایک ظاہری سا نقشہ کہ جس کی مناسبت ہے اس لفظ 
’’نفق‘‘ اور ’’نافقاء‘‘ سے. لیکن ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں جو اصل جذبہ کارفرما ہے وہ جام و مال کے بچاؤ کا ہے. حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے‘ بقول علامہ اقبال کہ ؎ 

تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں!

ایمان کا تقاضا ہے تو یہ ہے کہ اپنا سب کچھ لگا دو اور کھپا دو. اگر اللہ پر ایمان لائے ہو ‘ اس کے رسولؐ پر ایمان کے دعوے دار ہو تو اللہ کے دین کے غلبے اور اس کے رسولؐ کے مشن کی تکمیل کے لیے اپنی قوتوں اور توانائیوں کو صرف کر دینا ایمان کا لازمی تقاضا ہے‘ اس لیے کہ ایمان تو بندے اور ربّ کے درمیان ایک قول و قرار کا نام ہے. سورۃ التوبۃ میں اس کو یوں تعبیر فرمایا گیا : 

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ (آیت ۱۱۱)
’’بے شک اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں‘‘.

یہ بیع و شراء ہو چکا ہے. جان و مال اسی دنیا میں اللہ اور اس کے دین کے لیے لگا دو اور کھپا دو‘ اُس کے عوض آخرت میں اللہ تمہیں جنت عطا فرمائے گا. تو جان لو کہ اب 
یہ جان اور مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں‘ غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد میں جب جان و مال کے ایثار کی ضرورت پیش آئے انہیں اللہ کی راہ میں نچھاور کر دو. یہ ہے ایمان کا تقاضا. اسی لیے سورۃ الحجرات میں ایمانِ حقیقی کے بیان میں لفظ صدق کو نمایاں کیا گیا ہے : 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵
’’حقیقی مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائیں اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور پھر شک میں نہ پڑیں‘ اور وہ جہاد کریں اپنے اموال کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں‘ یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

اور یہی وجہ ہے کہ سورۃ الاحزاب میں اس صدق پر مبنی طرزِ عمل کی طرف توجہ بایں الفاظ دلائی گئی ہے : 
رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ ’’وہ جواں مَرد کہ جنہوں نے جو عہد اپنے ربّ سے کیا تھا اسے پورا کر دکھایا‘‘.

اس عہد میں کوتاہی‘ اس کے تقاضوں کو ادا کرنے سے پہلوتہی‘ اس سے کنی کترانا‘ اس میں پیچھے ہٹنا نفاق کا ایک سبب ہے. اس کے لیے ایک بڑی واضح اور مؤثر مثال سورۃ التوبۃ میں آئی ہے. فرمایا:

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾ 

’’اور ان میں سے کچھ لوگ وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے ایک عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمائے گا (یعنی رزق میں کشادگی فرمائے گا اور ہمیں تونگری عطا فرمائے گا)اور ہم صالحین میں سے ہو جائیں گے‘‘.

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶

’’لیکن جب اللہ نے اپنے فضل میں سے انہیں عطا کیا (انہیں غنی کر دیا) تو اب وہ اس کے ساتھ بخل کر رہے ہیں (مال کو سینت سینت کر رکھ رہے ہیں) اور اپنے اس عہد سے منہ موڑ رہے ہیں اور پیچھے ہٹ رہے ہیں‘‘.

اس سے اگلی آیت میں وہ الفاظ آ رہے ہیں جن کے لیے میں نے اس آیت کا حوالہ دیا‘ اور جو نفاق کے اصل سبب کو واضح کر رہے ہیں:

فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۷۷﴾ 

’’تو اللہ تعالیٰ نے (ان کے اس طرزِ عمل کی پاداش میں سزا کے طور پر) ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا اس دن تک کہ جب وہ اس سے ملاقات کریں گے‘ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے.‘‘