اب ایک اور بات جان لیجیے. ایک خیال یہ بھی عام لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے اور بعض روایات سے غلط طریقے پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ نفاق تو بس دَورِ نبویؐ ہی میں تھا‘ اس کے بعد اب نفاق کہیں موجود نہیں ہے. حالانکہ یہ تو ایک ایسا نفسیاتی مرض ہے کہ کوئی انسانی معاشرہ کبھی اس سے خالی نہیں رہا. ہر انسانی جدوجہد میں تین طرح کے طبقات ہمیشہ موجود رہے . ایک وہ کہ جو کسی نئی دعوت کو یا نظریے کو کھلم کھلا قبول کرتے ہیں‘ ہرچہ بادا بادکی شان کے ساتھ. دوسرے وہ جو کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں اور اس دعوت یا جدوجہد کا راستہ روکنے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں. ایک تیسرا طبقہ وہ ہوتا ہے کہ وہ کسی جانب یکسو نہیں ہوتا‘ بلکہ ادھر والوں سے بھی بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور اُدھر بھی اپنے روابط برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے. اسے ہر قیمت پر اپنا تحفظ مطلوب ہوتا ہے کہ اگر اونٹ اِس کروٹ بیٹھ جائے تب بھی ہمارے لیے بچاؤ کا کوئی راستہ رہ جائے اور اگر کہیں اُس کروٹ اونٹ بیٹھے تب بھی ہمارے لیے مکمل تباہی نہ ہو!اس کیفیت کو قرآن ’’ تربص‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور یہی درحقیقت نفاق کی بنیاد ہے.
سورۃ الحدید میں جہاں نفاق کی اصل حقیقت اور اس کے اسباب کا بیان ہے‘ وہاں یہ لفظ آیا ہے. اسی طرح سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ میں بھی‘ جس کا حوالہ اس سے قبل دیا جا چکا ہے‘ یہ لفظ ہمارے مطالعے میں آ چکا ہے‘ کہ اے نبی! ان مسلمانوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور اپنے بھائی اور اپنے بیٹے اور اپنی بیویاں اور اپنے رشتہ دار اور اپنے وہ مال جو تم نے جمع کیے ہیں اور اپنے کاروبار جو تم نے بڑی محنت سے جمائے ہیں اور جن کے مندا پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے اور اپنی جائیدادیں جو تمہیں بہت محبوب ہیں‘ اگر یہ تمام چیزیں محبوب تر ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے تو جاؤ حالت تربص میں رہو‘ انتظار کرو!یہاں اسلوب میں غیظ و غضب نمایاں ہے اور الفاظ یہ ہیں: فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ ’’جاؤ‘ انتظار کرو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘.