نفاق کے بارے میں ایک اور بات جو لائق توجہ ہے اور نبی اکرمﷺ کی ایک بڑی ہی حکمت افروز حدیث بھی اس ضمن میں ملتی ہے کہ مرض نفاق کے حملے کا اصل خوف مؤمن ہی کو لاحق ہوتا ہے‘ منافق اس سے اندیشہ محسوس نہیں کرتا‘ اس لیے کہ وہ تو اس بیماری کے چنگل میں جکڑا جا چکا ہے . حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
مَا خَافَہٗ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا اَمِنَہٗ اِلاَّ مُنَافِقٌ
’’ کہ اس مرض نفاق سے صرف مؤمن ہی اندیشہ محسوس کرتا ہے اور اس سے خود کو محفوظ و مامون صرف منافق ہی سمجھتا ہے‘‘.
ظاہر بات ہے کہ ڈرے گا وہی جس کی گٹھڑی میں مال ہو گا. چنانچہ جس کے پاس ایمان کی کچھ پونجی موجود ہو گی وہی اس کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ محسوس کرے گا اور جس کی پونجی لٹ چکی ہو‘ اسے اب کاہے کا خوف! ؏ ’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعادیتا ہوں رہزن کو‘‘.
احادیثِ مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ گناہ اور غلطی اگرچہ مؤمن سے بھی صادر ہو جاتی ہے لیکن مؤمن کے احساس کی شدت کا یہ عالَم ہوتا ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہو جائے تو وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ ایک پہاڑ تلے دب گیا ہو یا پہاڑ کا سا بوجھ اس کے سر پر آ گیا ہو. اس کے برعکس منافق سے جب کوئی اس طرح کا معاملہ صادر ہوتا ہے تو ایک ہلکا سا احساسِ تقصیر تو اسے بھی ہوتا ہے لیکن بس اتنا کہ جیسے کسی کی ناک پر ایک مکھی بیٹھی تھی اور اس نے اسے اڑا دیا. اس شدتِ احساس کی آخری درجے میں کیفیت کا مشاہدہ اگر کرنا ہو تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معاملہ ذہن میں لایئے. ان کے بارے میں نبی اکرمﷺ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جس راستے سے عمرؓ کا گزر ہوتا ہے اس راستے سے شیطان کنی کترا جاتا ہے. حق و باطل میں فرق کر دینے والے اس عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے شدتِ احساس کا عالَم یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے‘ جنہیں حضورﷺ نے بطورِ راز کچھ منافقین کے نام بتا دیے تھے اور جو صاحب سر النبی مشہور تھے‘ حضرت عمرؓ اللہ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں کہ اے حذیفہؓ ! میں اللہ کی قسم دے کر تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کہیں میرا نام تو ان منافقین میں شامل نہیں تھا! یہ ہے شدتِ احساس!؎
اسی کا نقشہ ایک انصاری صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں سامنے آتا ہے. وہ ایک بار ایک عجیب کیفیت میں گھر سے نکلے. زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے : نافَقَ حنظلۃ‘ نافَقَ حنظلۃ‘ نافَقَ حنظلۃ کہ حنظلہؓ تو منافق ہو گیا. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہو ئی.انہوں نے سوال کیا کہ معاملہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ مَیں تو منافق ہو گیا ہوں‘ اور وہ اس لیے کہ جب میں نبی اکرمﷺ کی محفل میں ہوتا ہوں‘ اور آپﷺ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو ایمان و یقین کے اعتبار سے میرے دل کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور جب اپنے گھر بار میں جاکر دنیاوی مشاغل میں مصروف ہوجاتا ہوں تو وہ کیفیت برقرار نہیں رہتی ‘ یہی تو نفاق ہے!حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر چاہتے تو خود کو سمجھا سکتے تھے اور ان کی الجھن کو رفع کر سکتے تھے‘ لیکن آپؓ نے فرمایا کہ حنظلہؓ یہ کیفیت تو میری بھی ہے. تو آؤ چلو‘ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کریں کہ یہ معاملہ کیا ہے! نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی‘ معاملہ پیش کیا گیا. آپﷺ نے فرمایا اے حنظلہؓ ! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ جو کیفیت میری صحبت میں اور میری مجلس میں تمہیں حاصل ہوتی ہے اگر وہ مستقل اور دائم ہو جائے اور تم ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہو تو فرشتے تم سے تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں میں مصافحہ کرنے لگیں! وَلٰـــکِنْ یَا حَنْظَلَۃُسَاعَۃً وَسَاعَۃً لیکن اے حنظلہؓ ! یہ تو وہ دولت ہے جو کبھی کبھار میسر آتی ہے. یعنی کیفیات کا یہ فرق بالکل فطری ہے‘ یہ نفاق نہیں ہے.
بہرحال نفاق سے جس درجے آج مسلمان اپنے آپ کو محفوظ و مأمون سمجھتے ہیں‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معاملہ ایسا نہیں تھا. ہمارا حال یہ ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہوئے جب منافقین کا ذکر آتا ہے‘ جب ہم ان آیات کو پڑھتے ہیں جن میں منافقین پر سخت انداز میں گرفت کی گئی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان آیات اور ان مضامین کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ ان آیات میں ہم سے کوئی بحث نہیں‘ یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے جس کے بارے میں یہ ساری باتیں ہو رہی ہیں. گویا کہ قرآن مجید کے ان مقامات اور ان آیات سے ہم بالکل محروم ہو جاتے ہیں.