اب ذرا ایک نظر اس مرضِ نفاق کی ہولناکی اور اس کی ہلاکت خیزی پر بھی ڈالیے! اس کا ایک نقشہ تو ان شاء اللہ سورۃ المنافقون میں ہمارے سامنے آئے گا‘ تاہم اس ضمن میں سورۃ النساء کی یہ آیت بھی بہت قابل توجہ بلکہ لرزہ خیز ہے: اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ ’’یقینا منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے‘‘. معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو کفر کے مقابلے میں نفاق زیادہ مبغوض و ناپسند ہے. کافر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کھلم کھلا سامنے آ کر مقابلہ کرتا ہے‘ جو کچھ اس کے باطن میں ہوتا ہے اسی کا باہر اعلان کرتا ہے. کافروں میں وہ بھی ہیں جو اپنے باطل دین یا اپنے مشرکانہ اوہام وعقائد کے لیے گردنیں کٹوا کر اپنے کردار کی پختگی کا ثبوت دے جاتے ہیں. ابوجہل اسی نوع کا ایک کردار تھا جس نے اپنے معبودانِ باطل اور دین باطل کے لیے اپنی گردن کٹوا دی. اس کے مقابلے میں منافقانہ کردار بڑا گھناؤ نا کردار ہے اور اللہ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہے. یہی وجہ ہے کہ سخت ترین سزا اللہ تعالیٰ نے منافقین ہی کے لیے تیار کی ہے.

اس کاا یک مظہر یہ بھی ہے کہ منافقین کو رسول اللہ کی شفاعت اور استغفار سے محروم کر دیا گیا. سورۃ المنافقون میں یہ بات بڑے دو ٹوک اندا زمیں آئی ہے کہ منافقین کے حق میں نبی اکرم کا استغفار بھی اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہے. یہی مضمون سورۃ التوبۃ میں اپنی انتہائی صورت میں آیا ہے. فرمایا: 
اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ’’(کہ اے نبی!اللہ تعالیٰ ان منافقین سے اس درجے ناراض ہے کہ) اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفارکریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا‘‘. لہذا اس راہ میں آنا ہے تو دل و دماغ کے یکسو فیصلے اور ہر چہ بادا باد کی شان کے ساتھ آنا ہو گا. ؏ ’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟‘‘ تحفظات کے ساتھ مت آؤ ‘ جان و مال کو کسی طور سے سلامت رکھنے کا فیصلہ کر کے نہ آؤ‘ بلکہ طے کر کے آؤ کہ جو تقاضاہو گا حاضر ہوں گے‘ جو مطالبہ کیا جائے گا پورا کریں گے. تبھی نفاق سے محفوظ رہ سکو گے.