اب ذرا ہمیں اس پہلو سے بھی غور کرنا ہے کہ مرض نفاق سے بچاؤ کا ذریعہ اور طریقہ کون سا ہے!ظاہر بات ہے کہ نفاق ضد ہے ایمان کی. یہ بات ذہن میں رہے کہ ایمان کی ضدیں (antonyms) دو ہیں‘ ایک قانونی یا ظاہری اعتبار سے اور دوسری باطنی اعتبار سے . قانونی اعتبار سے مؤمن کے مقابلے میں کافر کا لفظ آتا ہے . بلکہ یہاں مؤمن کی بجائے مسلم کا لفظ زیادہ موزوں ہے. چنانچہ قانونی اعتبار سے تو دو ہی درجے ممکن ہیں : کافر یا مسلم. تاہم باطنی اعتبار سے اور دلی کیفیات کے لحاظ سے ایمان کی ضد ہے نفاق!اس پہلو سے مؤمن کے مقابلے میں منافق کا لفظ آتا ہے‘ گویا حقیقت کے اعتبار سے ایمان کی ضد نفاق ہے اور قانونی اعتبار سے کفر! لہذا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو نفاق سے بچانا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ کبھی اس مرض کی چھوت اسے لگے تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اسے مستحکم رکھنے کی فکر کرے.
اور ایمان کی آبیاری‘ اس کی تقویت اور اس کو سرسبز و شاداب رکھنے کا حقیقی اور مؤثر ذریعہ ذکر الٰہی کے سوا اور کوئی نہیں! تلاوتِ قرآن حکیم اور نماز ذکر کی اعلیٰ ترین صورتیں ہیں‘ یاپھر دوامِ ذکر کی وہ صورت جس کا تذکرہ پچھلے سبق یعنی سورۃ الجمعہ میں تھا: وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰﴾ اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتے رہا کرو‘ اس کی یاد کو اپنے دل میں ہر دم تازہ رکھو‘ اس سے لو لگائے رکھو‘ آخرت کو مستحضر رکھو اور جان لو کہ تمہاری اصل منزل یہ دنیا نہیں‘ آخرت ہے. ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ. ہار اورجیت کے فیصلے کا دن وہ ہے اور اگرکہیں مرضِ نفاق کی کوئی چھوت تمہیں لگ گئی ہو‘ انفیکشن ہو گئی ہو‘ اس مرض نے دل میں کچھ جڑیں جما لی ہوں تو اب اس کا علاج کرنا ہو گا اور وہ علاج ہے انفاق!