دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’نفاق‘‘ اور ’’انفاق‘‘ دونوں کا سہ حرفی مادہ ایک ہی ہے یعنی ’’ن ف ق‘‘. اس سے ’’نفق‘‘ اور ’’نافقاء‘‘ کے الفاظ آتے ہیں جس سے منافقت کا لفظ نکلا ہے اور اسی مادے سے ’’نَفَقَ ، یَنْفَقُ‘‘ کے الفاظ مشتق ہیں جن سے باب افعال میں ’’انفاق‘‘ بنتا ہے‘ یعنی خرچ کر دینا اور کھپا دینا. یہی انفاق دراصل منافقت کا تیر بہدف علاج ہے. اللہ کی راہ میں جان و مال خرچ کرو‘ لگاؤ اور کھپاؤ! دل کی دنیا کو اس مال کی محبت اور اس کی نجاست سے پاک و صاف کرو!دنیا کا تمام مال و اسباب محض برتنے اور استعمال کرنے کی چیز ہے (مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ) لیکن دیکھنا اس کی محبت دل میں راسخ نہ ہونے پائے‘ یہ مال و دولت ِ دنیا کسی درجے میں بھی تمہارا مطلوب و مقصود نہ بن جائے!اس کا ذریعہ یہی ہے کہ جو مال و دولت اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اسے زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو. مال کی محبت کو دل سے کھرچنے اور نفس کے تزکئے کے لیے یہ عمل بہت ضروری ہے.
سورۃ المؤمنون کے درس میں یہ بات آئی تھی‘ وہاں اہل ایمان کا ایک اہم وصف یہ بیان ہوا تھا : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ وہ لوگ کہ جو زکوٰۃ پر کاربند رہتے ہیں‘ یعنی نفس کے تزکئے کے لیے اپنا مال پیہم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیںیہ مضمون سورۃ المنافقون کے آخری حصے میں تفصیل سے آئے گا . اس سے قبل سورۃ التغابن کے آخر میں بھی ہم نے دیکھا کہ اس جانب اشارہ موجود تھا : وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾ کہ خرچ کرو‘ اس میں تمہارا بھلا ہے اور جو کوئی جی کے لالچ سے بچا لیا گیا وہی لوگ فلاح پائیں گے تاہم یہ مضمون اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا ہوا نظر آئے گا سورۃ الحدید میں جو ہمارے اس منتخب نصاب کا آخری مقام ہے. ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کا مضمون ان شاء اللہ العزیز جب ہم سورۃ المنافقون کا مطالعہ کریں گے تو ہر ہر آیت ایک بالکل صاف اور شفاف موتی کی طرح سامنے آئے گی‘ ہر ہر حرف خود بولتا محسوس ہو گا اور آیات کے مابین ربط و تعلق از خود نمایاں ہوتا چلا جائے گا.
یہ بات اس سے پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کی سورتیں بالعموم جوڑوں کی شکل میں ہوتی ہیں. ایک ہی مضمون کا ایک رخ ایک سورۃ میں اور اس کا دوسرا رخ اس جوڑے کی دوسری سورت میں زیربحث آتاہے. یہاں نوٹ کیجیے کہ سورۃ المنافقون حقیقت نفاق سے بحث کرتی ہے. نفاق ضد ہے ایمان کی. گویا ایک ہی تصویر کے مثبت رخ کا بیان سورۃ التغابن میں ہے اور اس کے منفی رخ کا ذکر سورۃ المنافقون میں ہے اور اس طرح ایک مضمون اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے.
اعوذ باللّٰہ من الشَّیْطن الرَّجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲﴾ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۵﴾سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۶﴾ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۷﴾یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾
یہ سورۃ المنافقون ہے‘ جو اٹھائیسویں پارے میں سورۃ الجمعہ کے بعد اور سورۃ التغابن سے قبل وارد ہوئی ہے. دو رکوعوں پر مشتمل اس سورۃ کی کل گیارہ آیات ہیں. اس کا ایک رواں اور بامحاورہ ترجمہ یوں ہوگا:
’’اے نبیؐ ! جب یہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہ ہیں اس پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں. اوراللہ کو خوب معلوم ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں. انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے‘ پس وہ اللہ کے راستے سے رُک گئے ہیں‘ یقینا بہت برا ہے وہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کیا. یہ اس لیے کہ وہ ایمان لائے‘ پھر انہوں نے کفر کیا‘ تو ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ‘ تو اب وہ تفقہ سے عاری ہو چکے ہیں. اور جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کی جسامت اور ان کی تنومندی سے آپ متأ ثر ہوتے ہیں‘ اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں. ان کی مثال ان سوکھی لکڑیوں کی سی ہے جنہیں سہارے سے کھڑا کر دیا گیا ہو. ہر دھمکی کو وہ اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں. یہی دشمن ہیں‘ پس ان سے بچئے. اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کرے‘ کہاں سے بچلائے جا رہے ہیں. اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ آؤ تاکہ اللہ کے رسول تمہارے لیے استغفار کریں تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں ان کو کہ وہ رُکے رہ جاتے ہیں گھمنڈ اور غرور کی وجہ سے. ان کے حق میں بالکل برابر ہے خواہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں‘ اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو معاف فرمانے والا نہیں . اللہ تعالیٰ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا. وہی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مت خرچ کرو ان پر کہ جو اللہ کے رسولؐ کے آس پاس ہیں یہاں تک کہ یہ بھیڑ منتشر ہو جائے‘ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کی ملکیت ہیں لیکن منافقین کو اس کا فہم حاصل نہیں. کہتے ہیں اگر ہم لوٹ گئے مدینے کی طرف تو ہم میں سے باعزت لوگ کمزوروں کو لازماً نکال باہر کریں گے‘ حالانکہ عزت تو اللہ کے لیے‘ اس کے رسولؐ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہے‘ لیکن منافق اس کا علم نہیں رکھتے.
اے ایمان والو! نہ غافل کر پائیں تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے. اور جو کوئی اس کا ارتکاب کرے گا تو وہی ہیں کہ جو خسارے میں رہنے والے ہیں. اور خرچ کرو اور کھپا دو اس میں سے کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس سے پہلے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آن کھڑی ہو اور پھر وہ کہے اے میرے ربّ کیوں نہ تُو مؤخر کر دے میرے اس وقت ِ معین کو تھوڑے سے وقت کے لیے تو میں صدقہ کروں اور میں نیکوکاروں میں سے ہو جاؤں. اور ہرگز ہرگز مؤ خر نہ کرے گا اللہ کسی ذی نفس کے لیے بھی جب کہ اس کا وقت ِ معین یعنی اس کی اجل آن پہنچے‘ اور اللہ تعالیٰ باخبر ہے اس سے کہ جو تم کر رہے ہو‘‘.
جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ یہ مختصر سورۃ نفاق کے موضوع پر انتہائی جامع ہے. اب ہم اللہ کے نام سے اس کی آیاتِ مبارکہ کا سلسلہ وار مطالعہ شروع کرتے ہیں. جو باتیں نفاق کے بارے میں تمہیداً عرض کی جا چکی ہین‘ ان شاء اللہ العزیز ان کے بعد اس سورۂ مبارکہ کے مطالب و مفاہیم بڑی آسانی سے واضح ہوتے چلے جائیں گے.
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اگرچہ نفاق کا ذکر بعض مکی سورتوں میں بھی موجود ہے‘ چنانچہ ہمارے اس ’’منتخب نصاب‘‘ کے اگلے درس یعنی سورۃ العنکبوت میں یہ بات سامنے آئے گی‘ لیکن نفاق نے ایک باقاعدہ ادارے کی شکل مدنی دور میں اختیار کی اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ایک بیماری تھی جس نے بڑھ کر تدریجاً ’’نفاق‘‘ کی معین شکل اختیار کی. چنانچہ اس ضمن میں ہمیں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ مدنی سورتوں میں سے اوّلین سورتوں میں اس روگ کی نشان دہی تو کر دی گئی ہے اور بیماری کا ذکر تو موجود ہے مگر لفظ ’’نفاق‘‘ استعمال نہیں کیا گیا. یعنی کسی کو تعین کے ساتھ منافق قرار نہیں دیا گیا. چنانچہ سورۃ البقرۃ میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ ’’ان کے دلوں میں ایک بیماری تھی تو اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا‘‘لیکن پوری سورۃ البقرۃ میں کہیں لفظ ’’نفاق‘‘ یا ’’منافقت‘‘یا ’’منافق‘‘ موجود نہیں. تاہم جیسے جیسے معاملہ آگے بڑھا‘ یہ مرض پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آیا. آغاز میں حکمت تربیت کا تقاضا بھی یہ تھا کہ ان کو بالکل ننگا نہ کیا جائے‘ علامات بیان کر دی جائیں‘ تاکہ جن کے دلوں میں ابھی یہ روگ ابتدائی درجے میں ہو‘ اگر وہ متنبہ ہو جائیں اور اصلاح پر آمادہ ہوں تو اس میں انہیں کوئی حجاب محسوس نہ ہو. لیکن بہرحال ایک وقت آیا کہ پھر منافق کی اصطلاح کھل کر استعمال ہوئی.