فرمایا: اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ کہ جب وہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں یہ ٹکڑا بہت قابل توجہ ہے.یہاں نفاق کے بارے میں ایک بات یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ وہ نفاق جس کا ظہور دورِ نبویؐ میں مدینہ میں ہوا‘ اس کا آغاز درحقیقت یہود کی جانب سے ہوا اور مسلمانوں میں سے بھی اَوس اور خزرج کے قبیلوں کے وہ لوگ سب سے پہلے اس مرض کی لپیٹ میں آئے جن کے یہودیوں کے ساتھ حلیفانہ تعلقات اور سماجی روابط تھے. یہیں سے نفاق کا پودا پروان چڑھا اور برگ و بار لایا. یہود کے بارے میں ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ انہوں نے جب نبی اکرم کی اُبھرتی ہوئی طاقت کو دیکھا تو اگرچہ ان کے علماء خوب پہچان گئے تھے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ لیکن نسلی تعصب کے باعث ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے. نبی آخر الزماںکی پیشین گوئیاں ان کے ہاں موجود تھیں اور وہ منتظر تھے کہ اس نبی کے ظہور کا وقت اب قریب ہے. چنانچہ جب کبھی اَوس اور خزرج کے لوگوں سے ان کا جھگڑا ہوتا اور ان کی عددی اکثریت کی وجہ سے یہودیوں کو دینا پڑتا تو وہ یہ دھمکی دیا کرتے تھے کہ اس وقت تو تم ہمیں جس طرح چاہو دبا لو لیکن یاد رکھو کہ نبی موعود کی بعثت کا وقت قریب ہے‘ جب ہم اس کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں گے تو تم ہم پر غالب نہ آ سکو گے. گویا نبی اکرم کو انہوں نے پہچان تو لیا تھالیکن انہیں یہ گمان تھا کہ آخری نبی انہی میں سے یعنی بنی اسرائیل سے ہو گا. چنانچہ یہ نسلی اور قومی تعصب ان کے پاؤں کی بیڑی بن گیا کہ ہم سے یہ فضیلت کیوں چھین لی گئی اور بنی اسماعیل میں آخری اور کامل نبوت کا ظہور کیسے ہو گیا!! یہی ان کے قبولِ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا.

بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مدینہ منورہ میں نبی اکرم کو تمکن اور غلبہ عطا فرمایا اس کے آگے وہ بے بس سے ہو کر رہ گئے. ان کے بعض لوگوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں بھی مسلمان تسلیم کیا جائے‘ اس لیے کہ جن باتوں کی دعوت محمد ( ) دے رہے ہیں ان میں سے دو باتیں وہ ہیں جن کو ہم پہلے ہی سے مانتے ہیں. آپؐ توحید کی دعوت دے رہے ہیں‘ ہم توحید کے پہلے سے علمبردار ہیں‘ آپؐ آخرت کی دعوت دے رہے ہیں‘ ہم بھی آخرت کے ماننے والے ہیں. پھر یہ کہ تیسری بنیادی شے نبوت و رسالت ہے‘ اس میں بھی ہمار ے مابین کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے. نبوت و رسالت کے ہم بھی اسی طرح قائل ہیں جیسے محمد ( ) . خود محمد( ) یہ فرما رہے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام ) اللہ کے رسول تھے‘ عیسیٰ(علیہ السلام ) اللہ کے رسول تھے اور یہی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے تمام انبیاء جو اُن کے مابین آئے ان سب کی صداقت کے وہ ( ) معترف ہیں تو اب باقی سارے معاملات میں ہمارے اور ان کے مابین کامل اشتراک موجود ہے‘ سوائے اس کے کہ ہم ان کی رسالت کے قائل نہیں.

سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع کے ابتدائی الفاظ بڑے قابل توجہ ہیں. وہاں جو نقشہ کھینچا گیا وہ یہود اور منافقین دونوں پر راست آتا ہے : 
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ ’’ کہ لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یوم آخر پر‘ حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے‘‘. اس میں درحقیقت یہود کے اس موقف کی ترجمانی بھی ہو گئی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ماننے والے اور یومِ آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں. اب جھگڑا صرف رہ جاتا ہے محمد رسول اللہ کی نبوت و رسالت کا. تو چلیے اگر اتنی سی بات رہ بھی جائے تو اس میں حرج کیا ہے. مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہماری یہ حیثیت تسلیم کریں کہ ہم بھی مسلمان ہیں. یہی معاملہ تھا کہ یہود کے زیراثرجب اوس اور خزرج کے کچھ لوگوں تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بھی کچھ اسی طرز کا موقف اختیار کیا کہ اگر ہم محمد رسول اللہ کی کامل اطاعت اور متابعت اختیار نہ بھی کریں تو تب بھی ہمارے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا!لیکن پھر جب کوئی ایسا موقع آتا تھا کہ ان کی کوتاہی پر سرزنش کی جاتی تھی اور انہیں کوئی وضاحت یا کوئی معذرت پیش کرنی پڑتی تو ان کی طرف سے اپنے ایمان کے ادعاء اور اظہار کے لیے جو سب سے زیادہ پرزور بات کہی جاتی تھی وہ یہی تھی کہ ہم آپؐ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں.

یہی وجہ ہے کہ یہاں اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں ایمانیات میں سے صرف ایمان بالرسالت کا ذکر ہے: 
اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ کہ منافق لوگ نبی اکرم کی خدمت میں آ کر قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں. اس کے بعد بڑے ہی لطیف پیرائے میں تعریض کے انداز میں فرمایا: وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ کہ اللہ سے بڑھ کر کس کو معلوم ہوگا کہ آپؐ اس کے رسول ہیں!اللہ کو خوب معلوم ہے آپؐ اس کے رسول ہیں‘ لیکن فی الحقیقت یہ منافق کذب بیانی کے مرتکب ہو رہے ہیں. گویا کہ جو بات ان کی زبان سے نکل رہی ہے وہ اگرچہ لفظاً غلط نہیں ہے‘ لیکن ان کا قول ان کی دلی کیفیات کی ترجمانی نہیں بلکہ تکذیب کر رہا ہے. یہ لوگ دل سے آپؐ کو اللہ کا رسول تسلیم نہیں کرتے. لہذا فرمایا: وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ ’’اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں‘‘.