ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا... اب یہاں نفاق کی اصل حقیقت کا ذکر آ رہا ہے‘جس کے بارے میں اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ نفاق کی ایک قسم وہ بھی تھی اور یقینا تھی کہ انسان اسلام کا لبادہ ہی دھوکے کے تحت‘ فریب دینے کے لیے اوڑھتا تھا اور ایمان کی کبھی کوئی رمق اسے نصیب ہوتی ہی نہ تھی لیکن حقیقت کے اعتبار سے نفاق کی جو اصل نوعیت تھی وہ یہاں بایں الفاظ واضح ہو رہی ہے : ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ’’یہ اس لیے ہوا کہ وہ ایمان لائے‘ پھر انہوں نے کفر کی روش اختیار کی‘‘. نوٹ کیجیے کہ یہ کفر قانونی کفر نہیں ہے. اگر تو کوئی شخص ایمان لانے کے بعد علانیہ کافر ہو جائے تو وہ مرتد قرار پائے گا‘ لیکن منافق مرتد نہیں تھے. وہ ہمیشہ اہل ایمان کی صفوں میں ‘ قانونی اسلام کے دائرے میں رہے. تو معلوم ہوا کہ یہاں یہ لفظ کفر کفرِ حقیقی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے. جس طرح ایک ایمان قانونی ایمان ہے اور ایک ایمان حقیقی ایمان ہے‘ اسی طرح ایک کفر قانونی کفر ہے یعنی علانیہ کفر اور ایک ہے کفر حقیقی. اس کفر حقیقی کو اپنے ذہن میں نفاق کے مساوی قرار دے لیجیے. یعنی کفر حقیقی ہی دراصل نفاق ہے.

سورۃ المنافقون میں نفاق کے موضوع سے متعلق سارے مضامین بڑے ہی اختصار کے ساتھ سمو دیے گئے ہیں‘ لیکن اس آیۂ مبارکہ کی جو شرح سورۃ النساء میں وارد ہوئی ہے اس سے انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پورا 
process ایک دم اور یک بارگی نہیں ہو جاتااورانسان یہ فیصلہ اچانک اورایک ہی مرتبہ نہیں کرلیتا،بلکہ اس میں بہت سےاتارچڑھاؤ آتےہیں،انسان کبھی آگےبڑھ رہاہے،کبھی پیچھےہٹ رہاہے،پھرکبھی آگےبڑھنےکی کوشش کی ہے،پھر پیچھےہٹ گیاہے.اس طرح کی کیفیت دیرتک رہتی ہے،تاآنکہ پھرمرضِ نفاق دل میں راسخ ہوجاتاہےاوراپنی جڑیں مضبوطی سےجمالیتاہے.چنانچہ سورۃالنساءمیں جوالفاظ آئےہیں وہ بڑےفکرانگیزہیں.

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا ﴿۱۳۷﴾ؕبَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمَۨا ﴿۱۳۸﴾ۙ

’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے‘ پھر انہوں نے کفر کیا‘ پھر ایمان لائے‘ پھر کفر کیا‘ پھر وہ کفر میں بڑھتے چلے گئے‘ اللہ تعالیٰ ان کو بخشنے والا نہیں ہے اور نہ ہی انہیں راہ یاب کرنے والا ہے. (اے نبیؐ !) ایسے منافقوں کو آپ بشارت سنا دیجیے کہ ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے.‘‘

یہ ہے مرضِ نفاق کے شکار انسان کی باطنی کیفیت کا نقشہ کہ کچھ آگے بڑھا‘ پھر پیچھے ہٹا‘پھر حالات بہتر ہوئے اور آسانی ہوئی تو سرگرمی کے ساتھ کچھ پیش قدمی کی‘ لیکن پھر کہیں کوئی مشکل مرحلہ آ گیا تو پسپائی اختیار کر لی. اس کیفیت کی تمثیل اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع کے حوالے سے بیان کی جا چکی ہے: 
کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ کہ ایمان کے راستے میں‘ ایمان کے تقاضوں کو ادا کرنے میں کچھ آگے بڑھتے ہیں‘ قدم اٹھاتے ہیں‘ پھر ہمت جواب دے دیتی ہے. جان و مال کھپانے کے تقاضے بڑے کڑے اور بڑے کٹھن نظر آنے لگتے ہیں تو انسان بیٹھ جاتا ہے. پھر کمر ہمت کستا ہے‘ پھر بیٹھ رہتا ہے. یہ عمل جاری رہتا ہے‘ تاآنکہ ایسا انسان مستقلاً بیٹھ رہتا ہے اور اس سے ہمت و کوشش کی توفیق ہی سلب ہو جاتی ہے. یہی وہ مرحلہ ہے جس کے بارے میں یہاں فرمایا گیا: فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾ ’’تو ان کے دلوں پر مہر ہو چکی‘ پس وہ فہم سے عاری ہو چکے ہیں.‘‘

اس کے لیے قرآن حکیم میں ’’طبع قلوب‘‘ کے علاوہ ’’ختم قلوب‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں. یہ دونوں تراکیب مفہوم‘ معنی اور نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی 
ہیں. سورۃ البقرۃ کے پہلے رکوع میں کھلے کھلے کافروں کے ذکر کے ضمن میں الفاظ آئے ہیں: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ جبکہ یہاں منافقین کے ضمن میں فرمایا گیا: فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ’’پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے‘‘. فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾ ’’چنانچہ وہ فہم سے عاری ہو چکے ہیں.‘‘ اسی کو سورۃ البقرۃ میں صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے.یعنی یہ اندھے‘ بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں‘ ان کی سماعت و بصارت کی صلاحیتیں بظاہر موجود ہیں‘ لیکن وہ بصارتِ حقیقی سے تہی دست ہو چکے ہیں‘ سماعت ِ حقیقی سے محروم ہو چکے ہیں اور اب ان کے لوٹنے کا کوئی امکان نہیں.

ذہن میںرکھیے کہ نفاق کا یہ سارا معاملہ دراصل قلب کی دنیا سے یعنی انسان کے باطن سے متعلق ہے. ورنہ ظاہری طو رپر منافقین مسلمانوں ہی میں شمار ہوتے تھے. چنانچہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی کو بھی آخری وقت تک مسلمان تسلیم کیا گیا. یہاں اسلام اور ایمان کے مابین فرق کو ‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ ’’قانونی ایمان‘‘ اور ’’حقیقی ایمان‘‘ کے درمیان اس فرق کو جو اِس سے پہلے مختلف مواقع پر اس منتخب نصاب کے دروس کے دوران زیر بحث آ چکا ہے ‘ ایک مرتبہ پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے. اس لیے کہ یہ بڑی اہم بحث ہے. دین کے نظام کو سمجھنے کا بہت حد تک دار و مدار اِس پر ہے.

مختصر یہ کہ ایک ہے ’’قانونی ایمان‘‘ جس کے لیے مترادف نظام ’’اسلام‘‘ ہے اور ایک ہے ’’حقیقی ایمان‘‘ جو یقینِ قلبی سے عبارت ہے. اس یقینِ قلبی والے ایمان سے اگر انسان محروم ہو جائے تو یہ ایک نوع کے نفاق کی کیفیت ہے. تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ نفاق یا منافقت کسی قانونی درجے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی منافق کی کوئی علیحدہ قانونی حیثیت ہوتی ہے‘ بلکہ قانونی اعتبار سے تو مسلم اور کافر بس یہی دو حیثیتیں ہوتی ہیں. ہاں ایک مسلمان کی باطنی کیفیات مختلف ہو سکتی ہیں. وہ مثبت طور پر مؤمن بھی ہو سکتا ہے اور منفی طور پر منافق بھی!