منافقین کی اسلام دشمنی ایک چشم کشا واقعہ

سورۃ المنافقون کی ابتدائی تین آیات کا مطالعہ کسی درجےمیں ہم نے مکمل کرلیا ہے. اس سورۂ مبارکہ کے پہلے رکوع کی بقیہ آیات کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر کو پہلے ذہن میں مستحضر کر لینا مفید ہو گا. حقیقت نفاق پر اصولی گفتگو اگرچہ ہو چکی ہے‘ لیکن یہ کہ عملاً یہ نفاق کا مرض انسان کو کہاں سے کہاں پہنچاتا ہے‘ جس کو اس سے قبل ٹی بی کی تھرڈ سٹیج سے تعبیر کیا گیا تھا‘ یعنی نفاق کا وہ مرتبہ جہاں پہنچ کر اہل ایمان کے لیے بغض و عداوت اور ان سے دشمنی منافق کے دل میں گھر کر جاتی ہے‘ اس کی ایک نمایاں مثال اس واقعے کے حوالے سے سامنے آتی ہے جو غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر پیش آیا.

اس غزوے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ساتھ کچھ منافقین بھی لشکر میں شامل تھے. عبداللہ بن اُبی بھی اپنی جمعیت کے ساتھ موجود تھا. اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی. واپسی پر مریسیع کے کنویں کے قریب جہاں لشکر کا پڑاؤ تھا‘ دو مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا ہو گیا. ایک حضرت جہجاہؓ تھے جو حضرت عمرؓ کے ملازم تھے اور ان کے گھوڑے وغیرہ کوسنبھالتے تھے ‘ اور دوسرا شخص انصار کا حلیف تھا. معمولی سا جھگڑا ہوا. حضرت جہجاہؓ نے کہیں جذبات میں آ کر اس کو ایک لات رسید کر دی. اس پر ہنگامہ ہوا‘ ایک شور مچ گیا اور پرانی عصبیتوں کو آواز دی گئی. ہوتے ہوتے یہ معاملہ مہاجرین اور انصار کے مابین ایک جھگڑے کی شکل اختیار کر گیا. نبی اکرم کو اطلاع ہوئی‘ آپؐ تشریف لائے‘ سمجھایا بجھایا‘ معاملہ رفع دفع ہو گیا. لیکن جیسا کہ عموماً ہوتا ہے‘ اس کے بعد چہ مے گوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا . کچھ لوگ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے پاس گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ مہاجرین کی جرأتیں بڑھتی جا رہی ہیں! عبداللہ بن اُبی کو تو یوں سمجھئے کہ ایک موقع ہاتھ آ گیا. اس کے خبثِ باطن کے اظہار کے لیے یہ ایک بڑا مناسب موقع تھا.

اس نے لوگوں کو سخت سست کہا کہ آج مجھ سے کیا کہتے ہو‘ یہ سب کچھ تم لوگوں کا کیا دھرا ہے. یہ لٹے پٹے مہاجرین مکہ سے آئے تھے‘ ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا‘ تم نے ان کو جگہ دی‘ تم نے انہیں پناہ دی‘ تم نے ان پر خرچ کیا‘ انہیں کھلایاپلایا. اب ان کی ہمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہم لوگ یعنی اہل مدینہ ان کی دست درازیوں سے محفوظ نہیں ہیں. اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بڑے گستاخانہ الفاظ استعمال کیے. عربی زبان کی ایک کہاوت کا حوالہ دیا’’سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلُکَ‘‘ (یعنی اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو‘ کسی روز وہ خود تمہیں کاٹے گا) اور کہا کہ یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے‘ اور خدا کی قسم! اگر تم لوگ اپنا دستِ تعاون اُن سے کھینچ لو اور اُن پر خرچ نہ کرو تو یہ سب چلتے بنیں گے. یہ ایمان اور جہاد کا غلغلہ محض اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں کو کھانے پینے کو ملتا ہے‘ آرام اور آسائش حاصل ہے. یہ سہولت اگر سلب کر لی جائے تو یہ ساری بھیڑ چھٹ جائے گی. مزید برآں اس نے بہت زور دے کر کہا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں تو بالکل متفق الرائے ہو کر یہ طے کر لیں کہ جو صاحبِ عزت ہیں‘ جو مدینہ کے قدیم باشندے ہیں(یا جدید اصطلاح میں جو Sons of the soil ہیں) وہ ان کمزور لوگوں کو نکال باہر کریں. ان مہاجروں کو جو بڑے کمزور ہیں‘ جن کی کوئی حیثیت نہیں‘ اب ہم مدینہ سے بے دخل کر کے چھوڑیں گے.

یہ باتیں جہاں ہو رہی تھیں وہاں حضرت زید بن ارقم ؓ بھی موجود تھے جن کا شمار اس وقت نوجوان اور کم عمر صحابہ میں ہوتا تھا. انہوں نے جا کر یہ بات نبی اکرم تک پہنچائی. معاملہ چونکہ اہم تھا لہذا نبی اکرم نے ان سے اس بارے میں اچھی طرح پوچھ گچھ کی کہ کہیں ان سے سننے میں تو کوئی سہو تو نہیں ہوا. لیکن جب آپ کو اطمینان ہو گیا کہ حضرت ارقم ؓ جو بیان کر رہے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہے تو آپ نے عبداللہ بن اُبی کو طلب فرمایا اور باز پرس کی.وہ صاف قسم کھا گیا کہ مَیں نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کہی‘ یہ بالکل جھوٹ اور افتراء ہے جو مجھ پر باندھا جا رہا ہے. اب حضرت زید بن ارقم ؓ کی پوزیشن بڑی خراب 
(awkward) ہو گئی کہ عبداللہ بن اُبی کی بات کودرست تسلیم کیا جائے تووہؓ ‘جھوٹے پڑتے تھے. اتنے بڑے سردار اور اتنے معتبر شخص‘ رئیسِ خزرج کے مقابلے میں اس کم سن اور نوجوان صحابیؓ کی بات کون سنے! تو اس طرح حضرت زیدؓ کی پوزیشن بڑی ہی خراب ہوئی. اس پر یہ آیات نازل ہوئیں. ان میں گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نیک دل اور مخلص مسلمان کے قول کی توثیق و تصویب کی کہ جو جھوٹ اس پر چسپاں کر دیا گیا تھا اسے اس سے براء ت حاصل ہو جائے‘ اور اصل حقیقت پورے طور پر مسلمانوں کے سامنے آ جائے.

اس پس منظر میں ان آیات کا مطالعہ کیجیے اور اس پورے سلسلۂ کلام کو مدنظر رکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس مرضِ نفاق کی ہلاکت خیزی کیا ہے اور یہ انسان کو کس انجامِ بد سے دوچار کرتا ہے. چنانچہ یہ مرض جس کا آغاز معمولی دی تقصیرسے ہوتا ہے‘ یعنی دین کے تقاضوں کے مقابلے میں اپنی جان و مال کے تحفظ کا خیال اور ایثار و قربانی سے گریز‘ لیکن جب یہ آگے بڑھتا ہے تو جھوٹے بہانوں اور جھوٹی قسموں سے ہوتا ہوا اس منزل تک پہنچ جاتا ہے کہ اللہ کے رسول کی عداوت و دشمنی اور صادق الایمان مسلمانوں سے بغض اور دشمنی دل میں گھر کر جاتی ہے. یہ گویا کہ اس مرض کی وہ آخری سٹیج ہے کہ جس کے بعد دلوں پر مہر ہو جاتی ہے. یہ point of no return ہے کہ یہاں سے واپسی کا اب کوئی امکان نہیں.