فرمایا: وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ کہ اے نبیؐ ! جب آپؐ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کا تن و توش آپؐ کو بڑا اچھا لگتا ہے یہ بات سورۃ التوبۃ میں بھی بعینہٖ انہی الفاظ میں آئی ہے.ظاہر بات ہے کہ جو لوگ دنیا دار اور دنیاپرست ہیں اور جن کی ساری محنت اور جدوجہد کا مقصود اور مصرف بس دنیا کی زندگی ہے‘ ان کے پاس مال و دولت بھی وافر ہو گی اور معاشرے میں انہیں ایک حیثیت و وجاہت بھی حاصل ہو گی. وہ جس مجلس میں بیٹھے ہوں گے معتبر نظر آئیں گے. تو اس کا ایک نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے کہ اے نبی! جب آپؐ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے قد و قامت اور ان کے تن و توش سے آپؐمتأ ثر ہوتے ہیں وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ ’’اور جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو (ان کی ظاہری حیثیت کے موافق) آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے اور بڑے غور سے ان کی بات سنتے ہیں کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یہ ان لکڑیوں کی مانند ہیں جنہیں سہارا دے کر کھڑا کیا گیا ہو آپؐ ان کے اس ظاہری تن و توش پر نہ جایئے‘ یہ لوگ اندر سے کھوکھلے ہیں.

انسان کی ایک معنوی شخصیت ہوتی ہے. وہ اس کی قوتِ ارادی‘ اس کے عزم اور 
اس کی سیرت و کردار کی قوت سے عبارت ہوتی ہے. کوئی شخص خواہ بظاہر دبلا پتلا اور نحیب الجثہ ہو‘ ابوبکر صدیق ؓ‘کی مانند کہ جو نحیف و نزار ہی نہیں رقیق القلب بھی تھے‘ لیکن اندر اگر ایک عزیمت اور ایک فیصلہ کن ولولہ موجود ہو تو یہ شخص ان لوگوں میں سے ہو گا جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا کرتے ہیں. یہ وہ ہیں کہ جن کے ذریعے سے قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں. تو اس معنوی شخصیت کے اعتبار سے ان منافقین کا حال یہ ہے کہ : کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ بڑی عمدہ تشبیہہ ہے کہ ایک تو وہ درخت ہے کہ جو خود اپنے بل پر کھڑا ہے اور ایک وہ لکڑی ہے جو اپنی جگہ چاہے کتنی ہی موٹی اور وزنی کیوں نہ ہو لیکن زمین سے چونکہ اسے غذا نہیں مل رہی لہذا وہ سوکھ چکی ہے اور اب وہ اپنے بل پر کھڑی نہیں ہو سکتی‘ اسے کسی سہارے کی ضرورت ہے. کہیں اسے سہارا دے کر کھڑا کر دیجیے تو کھڑی رہے گی‘ بصورتِ دیگر ڈھیر ہو جائے گی. ان منافقین کی معنوی حیثیت بھی ان خشک لکڑیوں سے مختلف نہیں!