آگے فرمایا : یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ان کی اس باطنی کیفیت میں جو بزدلی‘ کمزوری اور ضعف مضمر تھا اس کی تعبیر ان الفاظ میں فرمائی کی جب بھی کوئی چیخ یا کوئی بلند آواز کان میں پڑتی ہے تو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری شامت آ گئی. دل ہی دل میں لرزتے اور کانپتے رہتے ہیں. سورۃ القیامۃ کی اس آیت کے مصداق کہ بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں. ان کی اصل حقیقت کیا ہے!قرآن میں اگر کوئی وعید وارد ہوتی تو بھی کم از کم وقتی طور پر انکی جان پر بن جاتی تھی‘اس لیے کہ ان کا ضمیر متنبہ کر دیتا تھا کہ یہ ہے انجام جس سے تم دوچار ہو گے. اورصَیۡحَۃٍ کے لفظ کے حوالے سے اشارہ کر دیا گیاکہ کہیں کوئی خطرے کی گھنٹی بجتی‘ یعنی کسی طرف سے کوئی خطرے کی آواز سنائی دیتی کہ کوئی لشکر حملہ آور ہوا چاہتا ہے تو خوف و دہشت سے ان کی جانیں لرزنے لگتیں. فرمایا: ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ یہی ہیں اصل دشمن.اے نبی! ان کو پہچانئے اور ان کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کی کوشش کیجیے. یہ جو آستین کا سانپ ہیں ان کا ڈنگ بہت خطرناک ہے. لہذاآپ پورے طور پر چوکس اور محتاط رہیں اور ان کے طرزِ عمل پر نظر رکھیں. آیت کے آخری حصے میں فرمایا: قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾ اللہ انہیں ہلاک کرے‘ یہ کہاں سے لوٹائے جا رہے ہیں! اس میں ایک حسرت بھی ہے کہ کہاں تک ان کی رسائی ہوئی‘یہ اپنی خوش بختی کا تصور کریں کہ محمد کے دامن سے وابستہ ہونے کا شرف انہیں حاصل ہوا‘ لیکن یہ بدبخت کہاں تک پہنچ کر واپس جا رہے ہیں!یہ کس خوش بختی ‘ رشد اور فوز و فلاح کی منزل کے قریب پہنچ کر اب محرومی کی طرف لوٹائے جا رہے ہیں!!