اگلی آیت میں فرمایا: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ کہ اپنے غلط طرزِ عمل پر پشیمان ہونے اور اصلاحِ احوال کی جانب متوجہ ہونے کی اب ان سے توقع بھی عبث ہے. یہ چیز اس مرض کے آغاز میں تو ہوتی ہے لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا ہے. مرضِ نفاق اب تیسری سٹیج میں داخل ہو چکا ہے. لہذا ان کا حال یہ ہے کہ جب اہل ایمان ان سے یہ کہتے کہ تم سے جو غلطی ہوئی ہے اس کے ازالے کے لیے چلو نبی اکرم کی خدمت میں حاضری دو اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لو‘ تاکہ اللہ کے رسول تمہارے لیے استغفار کریں اور اللہ سے تمہاری خطاؤں کی معافی چاہیں تو بجائے اس کے کہ وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی خطا کا اعتراف کریں لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ ’’اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں‘‘یعنی متکبرانہ انداز میں اپنے سر کو جھٹک دیتے ہیں. اس لیے کہ ان کے باطن میں نفا ق کا پورا پوری طرح برگ و بار لا چکا ہے اور ان کی پوری شخصیت پر آ کاس بیل کی طرح مسلط ہو چکا ہے. فرمایا: وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۵﴾ ’’اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ رُکے رہ جاتے ہیں‘ استکبار کرتے ہوئے‘‘ان کے قدم گویا کہ جکڑ دیے گئے ہیں. نبی اکرم کی خدمت میں آکر غلطی کا اعتراف اور استغفار کی درخواست کرنے سے گویاکوئی چیز ان کے قدموں کو روکے ہوئے ہے اور یہ سب کچھ درحقیقت تکبر اور گھمنڈکے باعث ہے.