دوسرے رکوع کی پہلی آیت میں حفاظتی تدبیر کا بیان ہے. فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ ’’اے اہل ایمان! تمہیں غافل نہ کر دیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے‘‘. نفاق سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ کو کثرت سے یاد رکھو‘ اس کی یاد کو اپنے دل میں مستحضر رکھو. وہی ذکرِ الٰہی جس کے لیے نماز کا نظام قائم کیا گیا اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ دن رات میں پانچ مرتبہ اپنے معمولات میں سے نکل کر ایمان کو تازہ کرتے رہو. تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ عہد کا یہ سلسلہ برقرار رہنا چاہیے. نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت تجدیدِ ایمان کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے. غور کیجیے!اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ سے ایمان باللہ کی تجدید ہو گئی‘ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ سے ایمان بالمعاد یعنی بایمان بالآخرت از سر نو تازہ ہو گیا‘ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴سے اس عہد کی تجدید ہو گئی جو بندے اور ربّ کے درمیان ہے. تو نماز درحقیقت ذکرِ الٰہی کی انتہائی مؤثر اور جامع صورت ہے. لیکن اصل میں مقصود یہ ہے کہ استحضار اللّٰہ فی القلب کی یہ کیفیت دائم ہو جائے‘ مستقل ہو جائے.

صوفیاء نے اس معاملے کو خصوصی طو رپر اپنا موضوع بنایا اور اسے اپنی آخری منطقی انتہا تک پہنچایا ہے. پاسِ انفاق کی مسلسل ریاضت اور مشق سے یہ کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ذکر کا معاملہ ہر سانس کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سانس غفلت میں نہ نکلے. شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ نے بڑے پیارے انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے. ان کا کہنا ہے ہر سانس جب انسان کے اندر جاتا ہے تو موجب تقویت بنتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو باعثِ تصفیہ ہوتا ہے. جسم کے بہت سے خراب بخارات کو لے کر وہ باہر نکلتا ہے اور انسان کے اندرونی نظام کی صفائی کا ذریعہ بنتا ہے. شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: ’’پس بر ہر نفس دو شکر واجب است‘‘ کہ پس ثابت ہوا کہ ہر سانس پر دو مرتبہ اللہ کا شکر لازم ہے. بہرکیف ان چیزوں میں کچھ مبالغہ نظر آئے تب بھی یہ بات جان لیجیے کہ دوامِ ذکر کے لیے شعوری کوشش کرتے رہنا انسان کے لیے ضروری ہے. اس لیے کہ یہ نفاق سے بچنے کا ایک مؤ ثر ذریعہ ہے.

اس سے پہلے سورۃ الجمعہ کے درس میں اشارہ کیا جا چکا ہے کہ دوامِ ذکر کی ایک نہایت مفید اور قابل عمل صورت یہ ہے کہ انسان ’’ادعیہ ٔ ماثورہ‘‘ کا التزام کرے. یعنی نبی اکرم کی وہ دعائیں جو آپؐ زندگی کے مختلف اعمال و افعال کرتے ہوئے مانگا کرتے تھے اور اس طرح آپؐ کی زبان پر اللہ کا ذکر دعاؤں کی صورت میں جاری رہتا تھا. روز و شب کے معمولات کو ادا کرتے ہوئے قدم قدم پر نبی اکرم سے دعا ثابت ہے. آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے تو ساتھ ہی دعا زبان پر آ جاتی ہے‘ جوتے پہن رہے ہیں تو دعا ہے‘ سواری پر داہنا پاؤں آگے بڑھا کر چڑھ رہے ہیں تو دعا ہے‘ اتر رہے ہیں تو دعا ہے‘ سواری پر داہنا پاؤں آگے بڑھا کر چڑھ رہے ہیں تو دعا ہے‘ اتر رہے ہیں تو دعا ہے‘ گھر سے نکلے ہیں تو دعا ہے. گویا کہ زندگی کے ہر ہر کام کو انجام دیتے ہوئے دعا کی صورت میں اللہ کا ذکر جاری رہتا ہے. اس سے معمولات میں قطعاً کوئی خلل واقع نہیں ہوتا‘ انسان اپنی زندگی کی مصروفیات میں مشغول رہتے ہوئے بھی ذہن اور قلب کا رشتہ اللہ کے ساتھ برقرا ررکھ سکتا ہے. 
نبی اکرم نے فرمایا کہ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسان کے دل پر اپنی تھوتھنی جمائے رکھتا ہے جس سے وہ وسوسہ اندازی کرتا ہے. جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾ جب تک انسان اللہ کو یاد رکھتا ہے وہ پیچھے دبکا رہتا ہے اور وسوسہ اندازی نہیں کر سکتا. اسی لیے اس آخری سورۃ میں شیطان کے لیے ’’خناس‘‘ کا لفظ آیا ہے. مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾. خنس کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو.جب انسان اللہ کو یاد کر رہا ہو‘ اس کا دل یادِ الٰہی سے آباد ہو تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے‘ لیکن منتظر رہتا ہے کہ جیسے ہی دل پر غفلت طاری ہو جائے تو وہ پھر دل پر اپنا تسلط جمائے اور اپنی تھوتھنی رکھ کر پھونکیں مارنی شروع کر دے! لہذا کوشش کرو کہ تمہارا کوئی وقت‘ کوئی لمحہ یادِ الٰہی سے اور ذِکر الٰہی سے خالی نہ ہو. یہ ہے مرضِ نفاق سے بچاؤ کی تدبیر. یہ ہے وہ حفاظتی ٹیکہ جو نفاق کی چھوت سے انسان کو محفوظ رکھے گا.

آیت زیر بحث کے الفاظ کو ذہن میں لایئے فرمایا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ یہاں دو چیزوں کو معین کیا گیا ہے کہ جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کا باعث بنتی ہیں‘یعنی مال اور اولاد. یہ وہ بات ہے جو ہم سورۃ التغابن میں ا س سے قبل پڑھ چکے ہیں. گو ہمارے منتخب نصاب میں سورۃ التغابن پہلے ہے اور سورۃ المنافقون کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے تاہم مصحف میں سورۃ التغابن میں اس سورۃ المنافقون کے معاً بعد آتی ہے. اس اعتبار سے یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہی مضمون آگے چل کر سورۃ التغابن میں نہایت واضح شکل میں بایں الفاظ آیا ہے : اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ ’’جان لو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد ہی ذریعۂ آزمائش ہیں‘‘. یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تمہیں پرکھا جا رہا ہے . آیا ان کی محبت اس درجے دل پر مسلط ہو گئی ہے کہ ساری بھاگ دوڑبس انہی کے لیے ہو رہی ہے؟ یا یہ کہ اللہ کی یاد دل میں تازہ ہے‘ اپنی زندگی کی اصل منزل یعنی آخرت ذہن میں مستحضر ہے‘ اصل توجہ اپنے خالق و مالک اور آقا کی طرف ہے؟ یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تم جانچے اور پرکھے جا رہے ہو. چنانچہ متنبہ کر دیا گیا کہ اے اہل ایمان! دیکھنا‘ تمہیں یہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں.

یہ مضمون اس سے پہلے سورۂ نور میں بھی آ چکا ہے. وہاں اللہ کے کچھ نیک بندوں کی تعریف میں مثبت انداز میں یہ بات آئی تھی : 
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وہ جواں مرد‘ وہ باہمت لوگ جنہیں کوئی کاروبارِ دنیوی‘ کوئی تجارت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی. اور اگر کوئی شخص ان چیزوں کی محبت سے مغلوب ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو گیا تو اس کے بارے میں فرمایا: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ’’یہی ہیں جو خسارہ پانے والے ہیں‘‘.