حسرت بوقتِ مرگ

یہاں سورۃ المنافقون کے آخری حصہ میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک بڑا حسرت کا وقت آئے گا جب انسان کفِ افسوس ملے گا کہ اے کاش! میں اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر سکتا. آج یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے مال جمع کر رہے ہیں‘ گھروں کی آرائش و زیبائش پر بے تحاشا خرچ ہو رہا ہے‘ ان میں نامعلوم کہاں کہاں سے فرنیچر اور کراکری جمع کی گئی ہے‘ یہ سب چیزیں انسان کو بڑی محبوب ہیں وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ (التوبۃ:۲۴لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جس کے بارے میں سورۃ القیامہ میں ہم پڑھ چکے ہیں وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ﴿ۙ۲۸﴾ کہ وہ فراق کا وقت ہو گا. مال و دولت اور جائیداد‘ سب کو چھوڑ کر جانا ہو گا‘ یہاں سے نکلنا ہو گا‘اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی تعلق منقطع ہو کر رہے گا‘ اہل و عیال سے بھی جدا ہونا پڑے گا‘ اُس وقت انسان حسرت سے کہے گا: رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ کہ اے ربّ! کیوں نہ تو نے مجھے ذرا اور مہلت دے دی ! تُو اگر ذرا اس وقت کو ٹال دے تو فَاَصَّدَّقَ پھر میں یہ سب کچھ تیری راہ میں دے دوں‘ سارا مال صدقہ کر دوں وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾ اور میں بالکل سچائی اور صداقت کی راہ اختیار کر لوں. کاش مجھے تھوڑی سی مہلت اور مل جاتی تو میں صالحین میں سے ہو جاتا!! اس وقت بس یہی ایک حسرت ہو گی‘ لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا. اس لیے کہ اللہ کی یہ سنت ثابتہ ہے کہ جب کسی کا وقتِ معین آ جائے تو پھر اسے مؤخر نہیں کیا جاتا. وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ امتحان کا وقت ختم ہو چکا‘اب تو نتیجہ کے نکلنے کا انتظار کرو! اور آخری تنبیہہ کر دی گئی کہ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾ ’’اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ تم کرتے ہو‘‘. اس وقت کی یہ جزع فزع اور نالہ و شیون بھی فی الحقیقت منافقانہ ہو گی. اگر کہیں بالفرض کوئی مہلت مل بھی جائے تو پھر دوبارہ مال کی محبت عود کر آئے گی اور پھر تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتنی کتراؤ گے.

منافقت سے متعلق بنیادی اور تمہیدی مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نے سورۃ 
التوبۃ کی وہ آیت پڑھی تھی جس میں واضح نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کچھ لوگ ہیں کہ جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ اگر ہمیں کشادگی اور غنا عطا فرمائے اور مال و دولت سے نوازے تو ہم اس کی راہ میں صدقہ و خیرات کریں گے‘ لیکن جب اللہ نے انہیں وہ سب کچھ دے دیا جو انہوں نے مانگا تھا تو اب وہ اس میں بخل سے کام لے رہے ہیں اور اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات پر آمادہ نہیں ہیں. فرمایا: فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ تو اس بدعہدی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا. تو اللہ ان منافقین کے ظاہر اور باطن دونوں سے واقف ہے. وہ جانتا ہے کہ اگر کہیں بالفرض انہیں مہلت مل جائے تو پھر بھی یہ وہی کچھ کریں گے. جیسے کہ سورۃ الانعام میں فرمایا: وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۲۸﴾ تاکہ اگر ان کو لوٹا دیا جائے‘ ایک موقع اور دے دیا جائے تب بھی یہ ان حرکتوں کا اعادہ کریں گے جن سے انہیں روکا جاتا ہے. یقینا یہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں.

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین!