جیساکہ اس سے پہلے بارہا عرض کیا جاچکا ہے‘ ایک بندۂ مؤمن جس ماحول میں ایمان اور عمل کی منزلیں طے کرتاہے وہاں کوئی خلانہیں ہوتا.اگر اس کا ایک مخصوص نظریہ ہے تو اسی معاشرے میں اور بھی نظریات کارفرماہیں‘جہاں اس کا ایک مسلک ہے وہاں دوسرے مسالک کے لوگ بھی موجود ہیں . یہ دنیا مختلف نظریات کی ایک آماج گاہ ہے‘ یہاں تو کشمکش بلکہ کشاکش (struggle) ہوکر رہے گی . چنانچہ’’صبر‘‘کے بعد دوسرالفظ یہاں آیا ’’وَ صَابِرُوۡا ‘‘. مصابرہ کا لفظ مجاہدہ اور مقابلہ کے وزن پر آتا ہے.مراد یہ ہے کہ اہلِ کفراپنے نظریات کے دفاع میں صبر کریں گے‘ اہلِ شرک اپنے معبود انِ باطل کے لئے ایثار کا وطیرہ اپنائیں گے‘ اے اہلِ ایمان! تمہیں اللہ کے لئے‘ اس کے دین کی سر بلندی کے لئے صبر کرنا ہے اور صبر میں ان سب معاندین پر بازی لے جانا ہے . جب تک تم انہیں اس مقابلۂ صبر میں نیچا نہ دکھاؤ گے‘ آگے نہ بڑھ سکو گے.ہونا یہ چاہئے کہ اس تصادم ‘کشمکش اور ٹکراؤ میں تمہارا صبر دوسروں کے صبر پر سبقت لے جائے‘تمہارا ایثار و قربانی دوسروں سے بڑھ جائے‘ تم اپنے مقصد کے حصول کے لئے جان و مال نچھاور کرنے میں دوسروں پر بازی لے جاؤ . اگر تم نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی اور لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ کا معاملہ صرف اسی ایک صورت میں ممکن ہے . حقیقت یہ ہے کہ یہ آیۂ مبارکہ ہمارے منتخب نصاب کے اس پانچویں حصّے کے لئے نہایت موزوں اور بہت جامع عنوان کی حامل ہے . اب آئیے ذرا ایک نگاہِ باز گشت ڈالیں کہ صبر کا ذکر اس سے پہلے ہمارے اس منتخب نصاب میں کہاں کہاں ہوا ہے.