قرآن حکیم کی ابتدا ء ًنازل ہونے والی سورتوں میں ہرجگہ صبر کا لفظ فعل امر بصیغہ واحد وارد ہو اہے اوراس کے مخاطب اوّلین خود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں . آپ پر جب وحی کا نزو ل شروع ہوا تو فریضہ ٔ رسالت کی ادائیگی کے پہلے حکم کے ساتھ ہی صبر کی ہدایت بھی نازل ہوئی . فرمایاگیا: 

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ ۪﴿ۙ۵﴾وَ لَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ ۪﴿ۙ۶﴾وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾ 

دیکھئے آخری آیت میں صبر کا حکم موجود ہے . جس راہ پر آپ نے قدم رکھا ہے یہ اس کا لازمی تقاضاہے . اب جھیلنا ہوگا‘برداشت کرناہوگا‘تحمل کامظاہرہ کرنا ہوگا‘مصائب‘ تکالیف اور آزمائشوں کامردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا . چنانچہ ابتدائی ہر وحی میں نمایاں طور پر لفظ صبر کہیں حکم کے انداز میں اور کہیں تلقین و ہدایت کے پیرائے میں آتاہے . سورۂ قلم کا اختتام ان الفاظِ مبارکہ پر ہوتا ہے : فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ کہ اے نبی! اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کیجئے اور اس کے لئے صبر کی روش پر کاربند رہئے‘ خو دکوتھامے رکھئے‘ روکے رکھئے اور اس مچھلی والے یعنی حضرت یونس ؑکے مانند نہ ہوجائیے جنہوں نے کچھ جلدی کی تھی . کہیں فرمایا جاتا ہے: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًاo کہ اپنے ربّ کے لئے صبر کیجئے‘ اس کے حکم کا انتظار کیجئے اور ان گناہوں میں ڈوبے ہوئے منکر لوگوں کی باتوں میں نہ آجائیے.

کہیں صبر کی تلقین ان الفاظ میں کی جاتی ہے ـ: فَاصۡبِرۡ صَبۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۵﴾ پس صبر کیجئے خوبصورتی کے ساتھ !… ایک مجبوری کاصبر ہوتا ہے . مثلاً کسی نے آپ کو گالی دی اور آپ نے جواباً گالی دے دی اور دعویٰ یہ ہے کہ میں صبر کر رہا ہوں ! یہ صبرجمیل نہیں ہے . جھیلئے‘ برداشت کیجئے اور خوبصورتی کے ساتھ صبر کیجئے. کہیں حکم ہوتا ہے: وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ صبرکیجئے اور صبر کے لئے آپ کاسہار االلہ کی ذات ہے . اللہ سے قلبی تعلق اور اللہ پر توکل واعتماد‘ یہی آپ کے لئے صبر کی اصل بنیاد یں ہیں . ایک جگہ فرمایا : فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ صبرکیجئے جیسے کہ ہمارے صاحبِ عزیمت رسول صبر کرتے رہے ہیں . سورۃ العنکبوت میں حضرت نوح ؑ کاذکر ہے کہ ساڑھے نو سو برس تک دعوت دیتے رہے.مخالفت ہوئی‘ انکار و اعراض اور مسلسل تمسخر و استہزاء ہوا‘ لیکن وہ اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں لگے رہے‘ ان کے پائے ثبات میں کہیں لغزش نہ آئی.یہ ہے قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں میں صبر کا حکم جو بتکرار و اعادہ نبی اکرم کے لئے وارد ہوا.

یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ آنحضور نے جب دعوت کا آغاز فرمایا تو سب سے پہلا رد عمل جو ا س معاشرے کی جانب سے ظاہر ہواوہ تمسخر واستہزاء کی صورت میں تھا . اس میں کہیں کہیں ظاہری ہمدردی کاعنصر بھی شامل ہوتا تھا‘ کہ نہ معلوم بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا‘ اچھے بھلے آدمی تھے‘ہمیں تو ان سے بڑی اچھی توقعات تھیں‘ بڑی اچھی اُمیدیں ان سے وابستہ تھیں‘ نہ معلوم کیا ہو ا ہے . اسی طرح 
’’نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ‘‘ اور ’’نقلِ کفر کفرنہ باشد‘‘کوئی کہتا کہ خلل دماغی کا کوئی عارضہ لاحق ہوگیا ہے‘کوئی جنون کا عارضہ ہو گیا ہے یا کسی آسیب کا سایہ ہوگیا ہے . یہ باتیں استہزاء ً بھی کہی گئیں اور تمسخر کے انداز میں بھی‘ ہمدردانہ بھی کہی گئیں اور تاسف کے ساتھ بھی. ان سب باتوں کے جواب میں نبی اکرم کو صبر کرنے‘ جھیلنے اور برداشت کرنے کا حکم دیا گیا. انتیسویں پارے کی دوسری سورۃ ’’ن‘‘جسے سورۃ القلم بھی کہتے ہیں‘ کی ابتدائی آیات کے پس منظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نبی اکرم  معاندین کے ا س طرز ِ عمل پر بہت ملول اور غمگین ہیں . ملاحظہ کیجئے:

نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾فَسَتُبۡصِرُ وَ یُبۡصِرُوۡنَ ۙ﴿۵﴾بِاَىیِّکُمُ الۡمَفۡتُوۡنُ ﴿۶

’’گواہ ہے قلم اور جو کچھ کہ یہ لکھتے ہیں . اے نبی! آپ ( ) اپنے ربّ کی رحمت اور نعمت سے مجنون نہیں ہیں (آپ ملول و غمگین او ر رنجیدہ نہ ہوں‘ آپ ان پاگلوں کے کہنے سے کہیں پاگل تھوڑا ہی ہو جائیں گے ) اور یقیناً آپ کے لئے وہ اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا اور آپ تو اخلاق کی بلندیوں پر فائز ہیں (کیا دنیانے ایسا پاگل اور ایسا مجنون کبھی دیکھا ہے جو خلق عظیم کا پیکرہو‘کردار اور شرافت میں کوئی اس کا ہمسر نہ ہو؟)یہ کوئی دن کی بات ہے کہ آپ بھی دیکھ لیں گے اوریہ لوگ بھی دیکھ لیں گے (ساری دنیا دیکھ لے گی )کہ کس کا دماغ اُلٹ گیا تھا (کس کو دماغ کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا .جلد ہی حقیقت سامنے آجائے گی)‘‘.

سورۂ نون کا اختتام اس آیت پر ہورہا ہے جس کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے کہ : 
فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ کہ اے نبی ؐ جھیلئے‘ برداشت کیجئے‘ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کیجئے کہ وہ کب فیصلہ سناتا ہے او رحضرت یونس ؑ کی طرح کوئی عاجلانہ اقدام نہ کیجئے . 

ابتدامیں تویہ تمسخر و استہزا ء کسی درجے میں کچھ ہمدردانہ انداز کا تھا‘ لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھی تمسخر و استہزاء کا معاملہ سختی اور شدت کا روپ دھار تا چلا گیا . چنانچہ اس کی جھلک سورۂ مزمل کی اس آیت کے پس پردہ نظر آتی ہے: 
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ کہ اے نبی !ؐ صبر کیجئے ان کڑوی باتوں پرجو یہ کہہ رہے ہیں اور ان سے قطع تعلق کرلیجئے‘ لیکن یہ قطع تعلقی ہجرِ جمیل ہو.اگلی آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا : وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا ﴿۱۱﴾ چھوڑدیجئے مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو جو بڑے دولت مند ہیں‘سرمایہ دار ہیں‘ صاحب اقتدار اورصاحب وجاہت لوگ ہیں‘ ہم ان سے نپٹ لیں گے . آپ اپنی توجہ کو اپنی دعوت و تبلیغ پر مرتکز رکھئے . آپ ان کی جانب التفات نہ فرمائیے‘ ان سے نپٹنے کے لئے ہم کافی ہیں . اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ۱۲﴾وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٭۱۳﴾ ہمارے پاس ان کے لئے عذاب کا پورا سامان مہیا ہے جو منہ کھولے ان کا منتظر ہے . یہ کہیں بچ نہ نکلیں گے . لیکن آپ ان سے چشم پوشی فرمائیے.

ایک اور مقام پر بڑے خوبصورت انداز میں یہ بات بیان فرمائی : 
فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ کہ آپ ؐ ان منکروں سے اپنی توجہ کو ہٹا لیجئے‘ ان مخالفین کی جانب ملتفت ہی نہ ہوں‘ ان کے استہزا ء کی طرف توجہ ہی نہ کیجئے‘ آپ ؐ لگے رہیے دعوت و تبلیغ اور فریضہ ٔرسالت کی ادائیگی میں‘انذاراور تبشیر میں. فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ (سورۃ الغاشیہ ) آپ ؐ یاد دہانی کراتے رہئے‘ آپ ؐ کا کام یاد دہانی کرانا ہے‘ آپ ؐ ان پر نگران اور ان کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ آپ ؐ سے یہ باز پُرس نہیں ہوگی کہ انہوں نے کیوں آپ ؐ کی دعوت پر لبیک نہ کہا !…سورۃ الاعلیٰ میں یہی بات ایک اور انداز سے آئی : فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۹﴾سَیَذَّکَّرُ مَنۡ یَّخۡشٰی ﴿ۙ۱۰﴾ کہ آپ ؐ تذکیر کرتے رہئے اگر وہ تذکیر مفیدہو‘ اس کے مفید نتائج ظاہر ہوں . جس کے دل میں کچھ بھی اللہ کا خوف ہے‘کسی بھی درجے میں اسے اپنے خالق اور مالک اوراس کے حضور میں لوٹنے کا خیال ہے تو وہ اس سے نصیحت اخذ کرلے گا اوراس تذکیر سے فائدہ اٹھائے گا.