بہرحال صبر کے ضمن میں نبی اکرم  کو سب سے پہلے تمسخر واستہزاء اور مذاق کے مقابلے میں جمے رہنے‘ ڈٹے رہنے‘ جھیلنے‘ برداشت کرنے اور ثابت قدم رہنے کاحکم ہو ا. تاریخی اعتبار سے یہ بات جان لینی چاہئے کہ تقریباً تین برس تک نبی اکرم  کی دعوت اندر ہی اندر باہمی گفتگو ؤں اور انفرادی رابطوں (personal contacts) تک محدود رہی.ابھی لوگوں کو خطرے کا زیادہ احساس نہیں ہوا . نبوت کے چوتھے برس لوگوں نے یہ محسوس کیاکہ یہ دعوت تو ایک بہت بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہے . ؏ ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو‘ یہ معرضِ انقلاب میں ہے‘‘

.تب ان کے کان کھڑے ہوئے اور سوچنے لگے کہ آپ ؐ ؐ کاراستہ روکنا ہوگا‘ جسے ہم مشتِ غبار سمجھے تھے یہ تو ایک تیز و تند آندھی بن کر ہمارے اس پورے نظام‘ ہمارے مفادات اوراس پورے معاشرتی ڈھانچے اور vested interests کوخس و خاشاک کی طرح اڑا کر منتشر کرد ے گی . یہیں سے وہ دَور شروع ہو اجسے سیرت کی کتابوں میں ’’تَعْذِیْب الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ یعنی مسلمانوں کی ایذا رسانی اور بہیمانہ تشدد (Persecution) کا دَور کہا جاتاہے . کفار کی طرف سے جب مسلمانوں پر شدید جسمانی تشدد کیاجانے لگا تو بعض مسلمانوں کو کچھ گھبراہٹ لاحق ہوئی.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۂ عنکبوت میں بھر پو رخطاب وارد ہوا.چنانچہ صبر ومصابرت کی بحث میں قرآن کااوّلین مقام جوہمارے اس منتخب نصاب میں شامل ہے وہ سورۂ عنکبوت کے پہلے رکوع پر مشتمل ہے . اب اسی پر آ ئندہ گفتگو ہوگی . ان شاء اللہ ! 

اہل ایمان کے لئے 
ابتلاء و امتحان سے گزرنا لازمی ہے!