جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا‘ مکی دور کے ابتدائی تین چار سال ایسے تھے کہ جن میں سردارانِ قریش‘ جنہیں قرآن حکیم نے ’’ائمہ کفر‘‘ قرار دیا ہے‘ اس خیال میں رہے کہ ؏ ’’چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی‘‘ اور یہ کہ ہمارے اس نظام باطل کو کوئی حقیقی خطرہ درپیش نہیں ہے. چنانچہ انہوں نے اس دعوت کو چٹکیوں میں اڑانے کی کوشش کی‘اس کے استہزاء اور تمسخر کا معاملہ کیا‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بات آگے بڑھ رہی ہے‘ ہمارے نوجوان اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں‘ ہمارے غلاموں کے طبقے میں اس دعوت کا نفوذ ہو رہا ہے‘ تب وہ چونکے کہ ؏ ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!‘‘ان حالات میں جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے وہ اپنی پوری قو ّتِ مدافعت کو مجتمع کر کے حملہ آور ہوئے. اس حملے نے تشدد اور تعذیب (persecution) کی شکل اختیارکی. دو طبقات اس تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ بنے. ایک غلاموں کا طبقہ‘ جن کا نہ تو کوئی پرسانِ حال ہی تھا اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق تھے‘ وہ تو اپنے آقاؤں کی ایسی ملکیت تھے جیسے بھیڑ اور بکری‘ کہ جب چاہا اسے ذبح کر دیا اور جو چاہا ان کے ساتھ سلوک کیا. لہذا اس بہیمانہ تشدد کا سب سے زیادہ شکار وہی لوگ ہوئے جو غلاموں کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے. مثلا ً حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ.
اسی طرح آلِ یاسر جو اگرچہ غلام نہیں تھے لیکن باہر سے آ کر شہر میں آباد ہونے کی وجہ سے اجنبی تھے‘ کوئی ان کا پشت پناہ‘ حامی اور مددگار نہ تھا. اس لئے ابوجہل نے انہیں بدترین تشدد اور اپنے بہیمانہ انتقامی جذبات کا ہدف بنایا. چشمِ تصور سے دیکھئے اُمیہ بن خلف حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر اوندھے منہ لٹا کر گھسیٹ رہا ہے‘ جبکہ سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو اور آگ اگل رہا ہو. پھر ان کے سینے پر ایک بھاری سل بھی رکھ دی جاتی تھی. یہ تھا وہ اذیت ناک سلوک جو ان غلاموں اور بے یارو مددگار لوگوں کے ساتھ اختیار کیا گیا. حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ پر تشدد کی جو حدیں توڑی گئیں اس کی ایک مثال اس واقعہ میں دیکھئے کہ ایک مرتبہ آگ جلائی گئی‘ دہکتے ہوئے انگارے زمین پر بچھا دیئے گئے اور حضرت خبابؓ کو ننگی پیٹھ ان انگاروں پر لٹا دیا گیا. کمر کی کھال جلی‘ چربی پگھلی اور اس سے بتدریج وہ انگارے سرد ہوئے!! تشدد کا یہ سلسلہ مسلسل تین چار سال تک اپنے پورے نقطۂ عروج پر رہا.
اس دور کا ایک واقعہ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ سناتے ہیں کہ جب یہ مصائب ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو گئے توایک روز ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپؐ اُس وقت کعبے کے سائے میں اپنی چادر کا ایک تکیہ سا بنائے ہوئے استراحت فرما رہے تھے. ہم نے جا کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی مدد کب آئے گی (اب ہمارا پیمانۂ صبر لبریز ہونے کو ہے اور برداشت کی انتہا ہو گئی ہے).حضرت خبابؓ فرماتے ہیں اس پر نبی اکرم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے. آپؐ کے چہرۂ مبارک پر قدرے ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ ؐ نے فرمایا:’’ خدا کی قسم! تم سے پہلے لوگ اللہ کی راہ میں مصائب اور شدائد میں یہاں تک مبتلا کئے گئے کہ توحید کا علَم تھامنے کی پاداش میں ان میں سے کسی کو گڑھا کھود کر آدھے دھڑ تک گاڑ دیا جاتا اور پھر ایک آرا اس کے سر پر رکھ کر اسے چیرنا شروع کرتے یہاں تک کہ اس کا پورا جسم دو حصّوں میں تقسیم ہو جاتا لیکن پھربھی وہ لوگ توحید پر کاربند رہتے اور راہِ حق سے ہٹنے کا نام تک نہ لیتے تھے. ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوہے کی کنگھیوں سے لوگوں کے جسموں کوا س طرح مجروح کیا گیا کہ ان کی ہڈیوں پر سے گوشت کھرچ ڈالے گئے اور ایسا بھی ہوا کہ آگ کے الاؤ جلائے گئے اور ان میں زندہ انسانوں کو جھونک دیا گیا. تم پر تو ایسی کوئی مصیبت نہیں پڑی (تم لوگ جلدی مچا رہے ہو). وہ وقت آ کر رہے گا کہ ایک سوار صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے سوائے اللہ کے اور کسی کا خوف نہ ہو گا‘‘.
کسی قدر خفگی کا یہ انداز جو اس حدیث مبارکہ سے سامنے آتا ہے‘ وہی اسلوب یہاں سورۃ العنکبوت کی ابتداء میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے. گویا ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!
تم نے اسے پھولوں کی سیج سمجھا تھا حالانکہ یہ وہ راستہ ہے جس میں آزمائشوں کی خاردار جھاڑیاں قدم قدم پر موجود ہیں. اس سورۂ مبارکہ کے آغاز میں اللہ کی جانب سے اظہارِ خفگی یقینا موجود ہے تاہم یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جیسے کسی استاد یا مربی کا اپنے زیر تربیت تلامذہ کے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ ڈانٹتا ہے تو کبھی دلجوئی بھی کرتا ہے‘ اور کبھی ہمت بڑھانے کے لئے شاباش بھی دی جاتی ہے اور کبھی زیر تربیت شخص کی طرف سے ذرا کم ہمتی کا مظاہرہ ہو یا اس سے کسی کمزوری یا تقصیر کا صدور ہو رہا ہو تو پھر زجر و توبیخ بھی ہوتی ہے‘ ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لینا پڑتا ہے‘ اسی طرح اللہ جو سب کا حقیقی مربی ہے‘ وہ اپنے بندوں کے حق میں یہ دونوں صورتیں استعمال کرتا ہے. لیکن اس ڈانٹ میں بھی ایک شفقت ہوتی ہے‘وہ محبت سے خالی نہیں ہوتی. وہ عتاب درحقیقت محبت آمیز ہوتا ہے. تربیت کے عمل میں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں. تربیت کا یہی اسلوب سورۂ عنکبوت کے اس پہلے رکوع میں بہت نمایاں ہے.