اس رکوع کی پہلی آیت جو سورۂ عنکبوت کی بھی پہلی آیت ہے‘ حروفِ مقطعات پر مشتمل ہے. ان کا مفہوم و معنی کیا ہے؟ ہمارے اس منتخب نصاب میں چونکہ حروفِ مقطعات کا ذکر پہلی بار آ رہا ہے لہذا ان کی کسی قدر وضاحت ضروری ہے. تاہم یہاں صرف اسی قدر سمجھ لیجئے کہ ان کے حتمی اور یقینی معنی کوئی نہیں جانتا. یہ ایک راز ہے‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مابین. کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ہے‘ ان کے مفہوم کی تعیین میں عقل و خرد کے گھوڑے دوڑائے گئے ہیں‘ ظن و تخمین سے بھی بہت سی باتیں کہی گئیں لیکن حق بات یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی ان کی اصل مراد سے واقف ہیں. 

اگلی آیت پر نظر کیجئے : 
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا... کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کیا تھا کہ وہ چھوڑ دیئے جائیں گے‘ انہیں چھٹکارا مل جائے گا‘ جہنم سے نجات حاصل ہو جائے گی اور جنت میں داخلہ ہو جائے گا‘ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے. یہاں یہ بات نوٹ کیجئے کہ مسلمانوں سے براہِ راست خطاب کی بجائے صیغہ غائب میں ان سے گفتگو ہو رہی ہے. یوں نہیں فرمایا کہ ’’اے مسلمانو! کیا تم نے یہ سمجھا تھا …‘‘ بلکہ فرمایا ’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا…‘‘ یہ اجنبیت اور غیریت کا انداز ہے جو درحقیقت خفگی اور ناراضگی کو واضح کرنے کے لئے بڑا ہی لطیف پیرایہ ہے.

ذرا اس پس منظر میں اپنا جائزہ لیجئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں! آج کے مسلمان کی سوچ کیا ہے؟ انہوں نے تو پھربھی دعوتِ ایمان کو شعوری طور پر قبول کیا تھا. اگر 
’’ اٰمَنَّا ‘‘ کہا تھا تو اپنے کچھ آبائی عقائد کو چھوڑ کر کہا تھا‘ ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا. گویا ایک طرح کا مجاہدہ اور ایثار کیا تھا اور ایک ہم ہیں کہ بس ایک متوارث مذہبی عقیدے کی بنیاد پر مسلمان ہیں‘ عمل کا خانہ بالکل خالی ہے‘ یقین قلبی کی دولت سے محروم اور عملی اعتبار سے دین و مذہب سے کوسوں دور‘ لیکن سمجھے یہ بیٹھے ہیں کہ ہم تو بخشے بخشائے ہیں‘ جنت ہمارا پیدائشی حق ہے‘ فوز و فلاح تو ہمیں ہی ملنی ہے. اس پس منظر میں ذرا اس آیۂ مبارکہ کو پڑھئے اور بار بار پڑھئے!

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲
’’کیا لوگوں نے یہ گمان کیا تھا کہ وہ چھوڑ دیئے جائیں گے محض یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا!‘‘

کیا ان کی جانچ پرکھ نہیں ہو گی‘ انہیں ٹھوک بجا کر نہیں دیکھا جائے گا کہ کتنے پانی میں 
ہیں‘ کیا واقعی ایمان ان کے دلوں میں جاگزیں ہو چکا ہے یا یہ صرف مُنہ کا پھاگ ہے جو کھیلا جا رہا ہے؟ فتنے کا لفظ اس سے پہلے سورئہ تغابن میں بھی آ چکا ہے: اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ فتنہ عربی میں کسوٹی کو کہتے ہیں جس پر گِھس کر کھرے اور کھوٹے کی پہچان کی جاتی ہے‘ جس پر سونے کو رگڑ کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ زرِ خالص ہے یا اس میں کھوٹ شامل ہے‘ اور اگر کھوٹ شامل ہے تو کتنا ہے. اللہ کی راہ میں یہ مشکلات و مصائب‘ یہ تکالیف و آلام‘ یہ ایذائیں اور یہ قربانیاں‘ یہ سب درحقیقت کسوٹی کے درجے میں ہیں جن پر تمہیں پرکھا جا رہا ہے. یہ تمہارے ایمان کا ٹیسٹ ہے‘ یہ سب تمہارے ایمان کی صداقت کا ثبوت فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں!!