اگلی آیت میں فرمایا : وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ کہ ہماری تو یہ سنت ثابتہ ہے‘ ہمارا تو یہ مستقل طریقہ اور قاعدہ رہا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہم نے اسے جانچا اور پرکھا‘ اسے امتحانات اور آزمائشوں سے دوچار کیا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے. اس طرح ہم نے کھرے کو کھوٹے سے ممیز کیا اور سچے کو جھوٹے سے ممتاز کر دکھایا. فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾ لفظی ترجمہ تو یہ ہو گا ’’اللہ ان کو جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور ان کو بھی جان کر رہے گا جو جھوٹے ہیں.‘‘ لیکن چونکہ علمِ الٰہی قدیم ہے‘ اللہ کو کسی چیز کے جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ وہ علم از خود اور وقوع سے پہلے اسے حاصل ہے لہذا یہاںاس سے مراد ہو گی کہ اللہ ظاہر کر دے گا‘ کھول دے گا‘ اصل حقیقت کو بے نقاب کر دے گا. یہاں نوٹ کیجئے کہ الفاظ ایسے لائے گئے ہیں کہ عربی زبان میں تاکید کے لئے اس سے اوپر اور کوئی اسلوب نہیں ہے. فعل مضارع سے قبل لام مفتوح اور اس کے آخر میں نون مشدد. ’’لَیَعۡلَمَنَّ‘‘ یہ گویا تاکید کا آخری اور انتہائی انداز ہے جو عربی زبان میں مستعمل ہے. مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ ضرور واضح کرے گا‘ لازماً کھول کر رکھ دے گا کہ کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹ موٹ کا دعوائے ایمان کر رہے ہیں. یہاں لفظ ’’صَدَقُوۡا ‘‘ کو بھی خاص طور پر نوٹ کیجئے. آیۂ بر بھی اسی پر ختم ہوئی تھی : اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ اسی طرح سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کا اختتام بھی اسی لفظ پر ہوا : اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ گویا صادق القول اور مخلص مسلمانوں کو جھوٹے اور دغا باز مدعیانِ ایمان سے ممیز و ممتاز کرنا درحقیقت آزمائش کا اصل مقصود ہے.