یہ مضمون قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر آیا ہے اور اسی شان اور اسی گھن گرج کے ساتھ آیا ہے. اسی طرح کان کھول کر سنا یا گیا ہے کہ ابتلاء اور آزمائش تو لازماً آئے گی. چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱۴ میں فرمایا:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾ 

￿￿’’اے مسلمانو! کیا تم نے یہ گمان کیا تھا کہ جنت میں (آسانی سے) داخل ہو جاؤ گے‘ حالانکہ ابھی تو تم پروہ حالات وارد ہی نہیں ہوئے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے . (حضرت خبابؓ بن الارت کے حوالے سے جو حدیث ابھی بیان ہوئی تھی‘ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل اسی آیۂ مبارکہ کی ترجمانی ہے کہ وہ کٹھن مراحل اور بڑے بڑے امتحانات تو ابھی اس راہ میں تمہیں درپیش ہی نہیں ہوئے.) ان پر فقر و فاقے کی سختیاں آئیں‘ اور بہت سی جسمانی تکالیف انہیں جھیلنی پڑیں اور وہ ہلا ڈالے گئے (جھنجھوڑ دیئے گئے)‘ یہاں تک کہ پکار اٹھے (چیخ اٹھے) وقت کے رسول اور ان کے ساتھی اہل ایمان کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اس وقت انہیں بتایا گیا کہ) آ گاہ رہو‘ اللہ کی مدد قریب ہے.‘‘

یہ ہے امتحان و آزمائش کی وہ کسوٹی جس کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے. 
ایمان کی اس راہ میں قدم رکھو تو ذہنی طور پرتیار ہو کرآؤ کہ آزمائشوں اور امتحانات سے گزرنا ہو گا. تکالیف اور مصائب تو اس راہ کے سنگ میل ہیں اور یہ سب چیزیں اہل ایمان کو جانچنے اور مزید نکھارنے کا ذریعہ ہیں. بادِ مخالف کی تندی سے گھبرا اٹھنے کی بجائے اسے خوش آمدید کہنا چاہئے کہ؏ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے.