اگلی آیت میں سختی کا رنگ پھر جھلکتا دکھائی دیتا ہے. کان کھول دینے کے انداز میں فرمایا:
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ 

کہ کوئی جہاد کرتاہے تووہ جان لے کہ وہ اپنے ہی بھلے کو جہاد کرتا ہے. یہ خیال ہرگز دل میں نہ آئے کہ وہ اللہ پر کوئی احسان کر رہا ہے‘ اس جدوجہد اور ایثار و قربانی کا تمام تر فائدہ خود اسی کو پہنچے گا.

یہاں ’’جہاد‘‘ کا لفظ خصوصی طور پر توجہ کے لائق ہے. اس لئے کہ یہ سورت بالاتفاق مکّی ہے اور اس کا زمانۂ نزول سن پانچ یا چھ نبوی بنتا ہے. ہجرتِ حبشہ کے موقع پر یہ سورۂ مبارکہ نازل ہوئی‘ بلکہ ہجرت کی طرف اشارہ اور رہنمائی اسی سورۃ میں موجود ہے. لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کا ذکر نہایت اہتمام کے ساتھ آیا ہے : 
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ حالانکہ قتال فی سبیل اللہ کا مرحلہ تو ابھی آٹھ نو برس کے بعد آنے والا تھا. یہ کشمکش اوریہ جدوجہد اس وقت Passive Resistance (صبرِ محض) کے دور میں تھی. مسلمانوں کو حکم تھا کہ ڈٹے رہو‘ قائم رہو‘ ماریں کھاؤ لیکن مدافعت میں بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتے. اس کے باوجود اس صورت حال کو جہاد کا نام دیا گیا. یہ جدوجہد اور یہ Struggle ہے اپنے مسلک اور اپنے ایمان کے لئے‘ اپنے عقائد اور اپنے نظریات کے لئے. ثابت کر دو کہ تم ثابت قدم ہو اور اس کے لئے ہر شے کو قربان کر سکتے ہو‘ ہر بازی کھیل سکتے ہو‘ لیکن کبھی بھولے سے بھی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ تم اللہ پر‘ اس کے دین پر یا اس کے نبی  پر کوئی احسان کر رہے ہو. اللہ تو بے نیاز ہے ‘ اللہ کو کوئی احتیاج نہیں‘ وہ غنی ہے تمام جہانوں سے.

اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہارے اس جہاد و مجاہدہ ‘ صبر و مصابرت اور ایثار و قربانی کا سارا نفع تمہی کو پہنچنے والا ہے 
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ . چنانچہ اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ تمہاری سیرت پختہ ہو گی‘ تمہارا کردار کندن بنے گابلکہ تمہارے ایمان و عمل کو جِلا حاصل ہو گی‘ آخرت میں تمہیں اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ اور جنت کی نعمتیں نصیب ہوں گی. لہذا اللہ کی راہ میں جہاد و مجاہدہ اس خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرو کہ یہ میں اپنا کام کر رہا ہوں‘ اللہ پر اور اس کے نبی  پر کوئی احسان نہیں کر رہا. یہ مضمون یہاں بڑے تیکھے انداز میں آیا ہے: وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾ کہ جو کوئی جہاد کرتا ہے‘ دین کی راہ میں سرفروشی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ وہ اپنے ہی فائدے کے لئے یہ سب کچھ کرتا ہے ‘ اللہ کو کسی کی کوئی احتیاج نہیں ہے‘ وہ تمام جہانوں سے غنی اور بے نیاز ہے. اسی مضمون کا دوسرا رخ اس سے قبل سورۃ الحجرات میں ہمارے زیرِ مطالعہ آیا تھا: 

یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷

’’(اے نبیؐ ) یہ آپ پر احسان دھر رہے ہیں اپنے اسلام کا. فرما دیجئے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا کوئی احسان نہ دھرو‘ بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ سجھائی اگر تم سچے ہو!‘‘
منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت 

کہ بادشاہ کی خدمت کا تمہیں اگر کوئی موقع ملا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ اس پر تمہارا کوئی احسان ہے بلکہ بادشاہ کا احسان مانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع دیا ہے. حقیقت یہ ہے کہ جسے بھی اللہ نے اپنے دین کی خدمت کی توفیق دی ہے اسے اللہ کا احسان مند ہونا چاہئے کہ اس نے اسے اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیا ہے.