پر ایمان لانے والوں پر جو بدترین تشدّد ہو رہا تھا اس کا اوّلین نشانہ تو وہ لوگ بنے جو غلاموں کے طبقے سے ایمان لائے تھے لیکن اس تشدّد کا دوسرا بڑا شکار نوجوان تھے. یہ بات یہاں سمجھ لینی چاہئے کہ ہر دور میں کسی بھی انقلابی دعوت کی طرف پیش قدمی کرنے والوں میں معاشرے کے یہی دو طبقے آگے بڑھتے ہیں .یا تو معاشرے کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کسی انقلابی دعوت کو لپک کر قبول کرتے ہیں اور یا پھر نوجوان اس میں پیش قدمی کرتے ہیں. اسلام کی دعوت اپنی اصل کے اعتبار سے ‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انقلابی دعوت ہے. اسلام کی دعوت‘ عام مذہبی معنی میں تبلیغ کا عمل نہیں ہے. یہ بدھ مت کے بھکشوؤں یا عیسائی مشنریوں کی طرح کی تبلیغ نہیں ہے. یہ ایک ایسی دعوت ہے جس کی پشت پر ایک مضبوط نظریہ ہے. اس نظریئے کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کرنا ہے‘ نظام تبدیل کرنا ہے‘ اللہ کے دین کو سربلند کرنا ہے‘ اس کی کبریائی کو نافذ و قائم کرنا ہے. چنانچہ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے ‘ ایک نہایت گھمبیرانقلابی جدوجہد ہمیں نبی اکرم  کی اس تیئس سالہ جدوجہد میں نظر آتی ہے جس کا آغاز پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہوا اور جو آپؐ کے وصال تک جاری رہی. انقلابی دعوت کے بارے میں یہ سمجھ لیجئے کہ اگرچہ اس کا رُخ سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات کی طرف ہوتا ہے اور وہ پس ماندہ طبقات کو اپنا اوّلین ہدف نہیں بنایا کرتی‘ جیسے کہ عیسائی مبشرین یا مبلغین کا عام انداز ہوتا ہے کہ پسے ہوئے اور دبے ہوئے طبقات کی دلجوئی کر کے اور کچھ ان کی خدمت کر کے‘ مثلاً کچھ دودھ کے ڈبے تقسیم کر کے یا ان کے علاج معالجے کا بندوبست کر کے ان کے دلوں میں اپنے لئے ایک نرم گوشہ پیدا کر لیا جائے‘ تاہم اس انقلابی دعوت کی طرف سب سے پہلے یہی طبقات پیش قدمی کرتے ہیں. 

انقلابی دعوت ہمیشہ ایک فکر‘ ایک نظریہ پیش کرتی ہے اور اسے اس کی 
Face Value پر قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے. چنانچہ انبیاء اور رسولوں کی دعوت کا انداز ہمیشہ یہ رہا کہ وہ سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات کو سب سے پہلے مخاطب کرتے تھے. حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا گیا تو حکم ہوا : اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿۫ۖ۱۷﴾ ’’جاؤ فرعون کے پاس وہ بہت سرکشی دکھاتا ہے ‘‘.گویا پہلا تبلیغی مشن جو انہیں سونپا گیا وہ فرعون کے دربار میں دعوت پیش کرنے کے حکم پر مشتمل تھا. نبی اکرم کو اُم القریٰ یعنی مَکّہ میں جو بستیوں کا مرکز تھا‘ مبعوث کیا گیا. مَکّہ پورے عرب کے لئے تہذیبی‘ مذہبی اور ثقافتی بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاسی صدر مقام کی حیثیت رکھتا تھا. آپؐ جب مَکّہ سے مایوس ہو کر طائف تشریف لے گئے تو وہاں آپؐ نے گلیوں میں کھڑے ہو کر اسلام کی صدا نہیں لگائی ‘ دعوت و تبلیغ کے لئے پس ماندہ طبقات کو منتخب نہیں کیا بلکہ آپؐ نے طائف کے تین چوٹی کے سرداروں سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت ان کے سامنے رکھی! یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ دعوت اسلامی کا مزاج عام مذہبی تبلیغ سے بالکل جدا ہے‘ لیکن اپنی جگہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو سوسائٹی کے اعلیٰ طبقات ہوتے ہیں ان کے Vested Interests ہوتے ہیں‘ پہلے سے موجود نظام کے ساتھ ان کے بھاری مفادات وابستہ ہوتے ہیں‘ مصلحتوں کی بڑی بھاری بیڑیاں ان کے پاؤں میں پڑی ہوتی ہیں. ان کے لئے کسی انقلابی دعوت کو قبول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا. تاہم ان میں بعض اوقات کچھ ایسے انتہائی سلیم الفطرت لوگ بھی ہوتے ہیں جو فوراً اس دعوت کو قبول کر لیتے ہیں. حضرت ابوبکرصدیق ؓ اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے. لیکن عام طور پر جو لوگ اس دعوت کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں ان میں ایک تو وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جواس معاشرے میں ویسے ہی دبے ہوئے اور پسے ہوئے ہوتے ہیں‘ جن کے کوئی مفادات اس نظام کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے کہ جو ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن سکیں یا ان کی آنکھوں کے آگے پردہ بن کر حائل ہو سکیں‘ وہ اس دعوت کو Face Value پر آگے بڑھ کر قبول کرتے ہیں. (اس طبقے میں سے حضرت بلالؓ اور حضرت خبابؓبن الارت کا ذکر ہو چکا ہے).

دوسرا طبقہ جو کسی بھی انقلابی دعوت کی طرف پیش قدمی کرتا ہے وہ نوجوانوں کا طبقہ ہوتا ہے‘ اس لئے کہ یہ عمر ولولوں اور امنگو ں کی عمر ہوتی ہے. ابھی کوئی مصلحت کوشی اور مصلحت بینی ان پر مسلّط نہیں ہوئی ہوتی. ان کے جسم و جان میں کردار کی حرارت موجو دہوتی ہے. ابھی ان کا ضمیر مفادات کے مقابلے میں اتنا شکست خوردہ نہیں ہوتا کہ کسی بات کو حق سمجھنے کے باوجود اسے رد کر دے. چنانچہ نوجوان ہی کسی انقلابی دعوت کا ہر اول دستہ بنتے ہیں. یہ امر واقعہ ہے کہ نبی اکرم پر بھی ایمان لانے میں قریش کے سربرآوردہ اور شرفاء کے خاندانوں میں سے نوجوانوں ہی نے پیش قدمی کی. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو ابھی نوعمر یعنی 
teen ager تھے. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے جب ایمان قبول کیا تو وہ بھی عمر کے اسی دور سے گزر رہے تھے. حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نوعمری میں اللہ نے جو امتیاز بخشا اس سے کون واقف نہیں! بلکہ ان کے بارے میں یوں کہئے کہ وہ تو پہلے ہی اپنے تھے‘ گھر کے فرد تھے. اسی طرح نوجوانوں میں سے کئی ایسے تھے جو ایمان لائے. ان نوجوانوں پر بھی تشدّد ہوا. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو بنو اُمیہ کے بڑے اعلیٰ گھرانے کے چشم و چراغ تھے‘ اگرچہ اتنے کم عمر نہیں تھے کہ انہیں teen agerقرار دیا جا سکے‘ لیکن ایمان لانے پر چچا نے یہ معاملہ کیا کہ ایک چٹائی میں لپیٹ کر انہیں دھواں دے دیا کہ دم گھٹ جائے. ان نوجوانوں کو اس جسمانی ایذاء اور تشدّد پر مستزاد جو مسئلہ درپیش ہوا وہ یہ کہ ان کے والدین اپنے حقوق کا واسطہ دے کر ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین کو چھوڑو اور آبائی دین پر واپس آ جاؤ.

ظاہر بات ہے کہ نوجوانوں کے طبقے 
(teen agers) میں سے جن لوگوں نے محمد رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہا ان کے بارے میں بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی سلیم الطبع اور سلیم الفطرت نوجوان ہوں گے. ان کی سلامتی ٔ طبع اور سلامتی ٔ فطرت ہی کا یہ بھی تقاضا تھا کہ وہ اپنے والدین کا ادب و احترام ملحوظ رکھیں اور ان کے حقوق ادا کریں. لہذا ان کے لئے یہ ایک نہایت پریشان کن مرحلہ تھا کہ وہ والدین کی اطاعت کریں اور ان کا کہا مانیں یا توحید کو اختیار کریں اور والدین کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیں. ادھر ان کے والدین اپنے حقوق کا واسطہ دے کر انہیں راہِ حق سے برگشتہ کرنے پر تلے ہوئے تھے.