اہلِ ایمان کے لئے ایک نوید

اگلی آیت میں اہلِ ایمان کے لئے پھر reassurance ہے.یعنی تسلی و تشفی کا انداز اور اچھّے انجام کی نوید ہے. یہاں ہمیں اس معاملے پر بھی خاص طورپر غور کرنا ہو گا کہ یہ اعادہ کیوں ہو رہا ہے‘ حالانکہ دو آیات قبل اس سے ملتا جلتا مضمون گزر چکا ہے.فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۹﴾ 
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہم انہیں لازماً نیکوکاروں میں داخل کریں گے.‘‘

دیکھئے‘ ایمان کے ساتھ اس کے عملی تقاضے یعنی عمل صالح کا ذکر ایک بار پھر اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے. یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس سیاقِ کلام اور جس 
context (پس منظر) میں گفتگو ہو رہی ہے‘ اس میں ’’عمل صالح‘‘ سے کون سے اعمال مراد ہیں؟ ابھی نماز تو فرض نہیں ہوئی‘ روزے کا کوئی حکم ابھی آیا ہی نہیں‘ زکو ٰۃ کا ابھی کوئی نظام سرے سے قائم نہیں ہوا‘ تو یہاں ’’عمل صالح‘‘ سے آخر کون سا عمل مراد ہے! اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ایمان کا جو بھی عملی تقاضا سامنے آئے اسے پورا کرنا‘ ایمان پر ثابت قدمی دکھانا‘ رسول اللہ کے حکم کی اطاعت کرنا کہ رسولؐ اگر یہ کہیں کہ خواہ تمہیں اذیت دے کر ہلاک کر دیا جائے تم مدافعت میں بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتے‘جماعتی ڈسپلن کی پابندی کرنا اور دین کی دعوت و تبلیغ میں نبی کے دست و بازو بننا‘ یہ سب چیزیں عمل صالح میں شامل ہیں. گویا ایک لفظ میں اگر ہم یوں کہیں کہ یہاں ’’عمل صالح‘‘ سے مراد ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی ہے تو یہ درست ہو گا. اس لئے کہ ہمارے ذہنوں میں عمل صالح کا جو نقشہ بنا ہوا ہے اس کا ابتدائی مکی دور میں وجود نہیں تھا! اس آیت میں لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ کے الفاظ بھی خصوصی طور پرلائق توجہ ہیں ’’ہم لازماً انہیں صالحین میں داخل کر دیں گے‘‘. وہی تاکیدی انداز جوآیت ۷ میں اختیار فرمایا گیا‘ یہاں بھی موجود ہے. اس آیت کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا ہے: 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷

غور طلب بات یہ ہے کہ دوبارہ اس مضمون کا اعادہ کیوں ہوا! ذرا غور کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی اور اس تکرار میں جو معنوی حسن ہے وہ سامنے آ جائے گا. دیکھئے‘ یہاں ان نوجوانوں کا معاملہ زیرِ بحث تھا جو اسلام لانے کی پاداش میں اپنے والدین سے کٹ رہے تھے‘ جنہیں اپنے رشتہ داروں سے تعلق کاٹنا پڑ رہا تھا. یہاں ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھا جا رہا ہے کہ تم صرف کٹے ہی نہیں ہو‘ کسی سے جڑے بھی ہو!…تمہیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اب تمہارا تعلق قائم ہوا ہے محمد رسول اللہ اور ان کے صحابہ کے ساتھ!تم ان صالحین اور نیکوکاروں کے ساتھ ایمانی رشتے میں منسلک ہو گئے ہو. چنانچہ وہ صدمہ جو ایک سلیم الطبع انسان محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے کٹ گیا ہوں‘ اس کا ازالہ اس آیت سے ہوجاتا ہے. 

یہ ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ ابوجہل نے عین میدانِ بدر میں جو دعا مانگی 
تھی تو اس میں تعلقات کے انقطاع ہی کی دہائی دی تھی. وہ دعا اس اعتبار سے بھی بڑی عجیب ہے کہ اس نے وہاں کسی لات‘ عزیٰ‘ ہبل یا کسی منات کو نہیں پکارا بلکہ صرف اللہ کو پکارا: ’’اَللّٰھُمَّ اَقطَعَنَا لِلرَّحِمِ فَاَھِنْہُ الْیَوْمَ‘‘ اے اللہ جس شخص نے ہمارے رحمی رشتے کاٹ دیئے اسے آج رسوا کر دے! ‘‘وہ دہائی دے رہا تھا محمد رسول اللہ  کے خلاف اور اس کے نزدیک آنحضور کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ آپؐ نے باپ کو بیٹے سے جدا کر دیا‘ بھائی کو بھائی سے علیحدہ کر دیا‘ بیویوں اور شوہروں میں جدائی ڈال دی. اور اس طرح قریش کی قبائلی جمعیت منتشر ہو کر رہ گئی‘ ان کا شیرازہ پراگندہ ہو کر رہ گیا. یہ ہے وہ معاملہ جس کے لئے ان نوجوانوں کے دلوں پر مرہم رکھا جا رہا ہے. تم اگر اپنے عزیز رشتہ داروں سے کٹے ہو تو سوچو کہ نبی اکرم اور ان کے صحابہ سے جڑے بھی ہو! تمہیں ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہو ئی ہے جنہیں سورۃ الفاتحہ میں ’’مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ‘‘ قرار دیا گیا اور مُنْعَمْ عَلَیْھِمْکون ہیں‘ اس کا جواب سورۃ النساء کی آیت ۶۹ میں ہے:

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ 

کہ اپنے آباء و اجداد سے اگر تم کٹ گئے‘ اپنے بھائی بندوں سے تمہارا تعلق منقطع ہو گیا تو ملول و غمگین نہ ہو‘ تمہیں ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہو گئی ہے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ روزِ قیامت تم انبیاء کرام‘ صدیقین‘ شہداء اور نیکوکاروں کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے اور ان کے ساتھ جنت الفردوس میں تمہارا داخلہ ہو گا. اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے ! وَاَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَارِ‘ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ!!