اس کے بعد اب وہ مضمون آ رہا ہے جو اس سے قبل کسی قدر تفصیل کے ساتھ منافقت کی وضاحت کے ضمن میں سورۃ المنافقون کے درس میں بیان ہو چکا ہے. یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ سورۃ العنکبوت جس کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں‘ مَکّی سورۃ ہے اور مَکّی دَور کے بھی زیادہ سے زیادہ درمیانی عرصے میں اس کا نزول ہوا. اس اعتبار سے نفاق کی اس معروف صورت کا ابھی مسلمانوں کی صفوں میں کہیں دُور دُور تک نشان نہیں تھا جس کا بالعموم تصور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ منافق وہ ہے جو مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی نیت سے اسلام قبول کرے‘ اس نے محض ظاہراً اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو‘ اندرونی طو رپر وہ پکا کافر ہو‘ وغیرہ. مَکّی دَور میں اس کا کوئی امکان نہیں تھا. وہاں تو کلمۂ شہادت کا زبان پر لانا معاشرے کو چیلنج کرنے اور اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کرنے کے مترادف تھا. یہ گویا ایسے ہی تھا کہ کوئی انسان خود ہر طرح کی مصیبت کو دعوت دے اور آگے بڑھ کر للکارے. لہذا اس معروف نفاق کا ابھی کہیں دُور دُور تک کوئی امکان نہیں تھا.

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کون سا نفاق ہے جس کا ذکر اس سورۂ مبارکہ میں ہو رہا ہے. یہ ہے درحقیقت وہ اصل نفاق جو کم ہمتی‘ بزدلی اور قو ّتِ ارادی کی کمزوری سے عبارت ہے کہ اگرچہ ایمان جب قبول کیا تھا تو اس کی 
face value پر قبول کیا تھا‘ نبی کی بات دل کو لگی تھی تبھی اسے تسلیم کیا تھا‘لیکن پھر ایمان کے کٹھن تقاضے جب سامنے آنے لگے‘ مصائب‘ تکالیف اور ایذاؤں کا سامنا کرنا پڑا تو ان سے طبیعت گھبرانے لگی اور گریز کی طرف مائل ہونے لگی. اگر تو ان مشکلات کی وجہ سے کوئی انسان اپنی دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پس و پیش کرنے لگے‘ دین کے راستے میں اس کے قدم رکنے لگیں اور گومگو کی سی کیفیت اس پر طاری ہو جائے تو یہی درحقیقت مرضِ نفاق کا نقطۂ آغاز ہے!

نفاق اور منافقت کا یہ نقطۂ آغاز اس آیۂ مبارکہ میں بڑی وضاحت سے سامنے آتا ہے:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ 

’’لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اللہ پر‘ پھر جب انہیں ایذا پہنچائی جاتی ہے اللہ کی راہ میں (کچھ انفاقِ مال اور بذلِ نفس یعنی جان و مال کے ایثار کا مرحلہ آتا ہے یا کوئی تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں) تو وہ لوگوں کی (طرف سے ڈالی ہوئی) اس آزمائش سے ایسے گھبرا اٹھتے ہیں جیسے اللہ کے عذاب سے گھبرانا چاہئے.‘‘
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس رکوع میں فتنے کی دو نسبتیں بیان ہوئی ہیں. ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں کہ ہم نے فتنے میں ڈالا ہے‘ ہم تم سے پہلے لوگوں کو بھی آزماتے رہے ہیں 
وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ اور دوسرے یہ کہ یہ فتنہ اور آزمائش لوگوں کی طرف سے ہے. یہ دونوں باتیں بیک وقت درست ہیں. اگرچہ یہ ابوجہل ہے جو مسلمانوں کو ستا رہا ہے‘ اور اُمیہ بن خلف ہے کہ جو تکالیف پہنچا رہا ہے‘ لیکن یہ بغیر اذنِ ربّ نہیں ہے. فاعل حقیقی اور مؤثر حقیقی تو اللہ ہے جس کے اذن کے بغیر پتّا تک جنبش نہیں کر سکتا. یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہیں. بلالؓپرجو کچھ بیت رہا ہے عالمِ اسباب میں اس کا سبب اُمیہ بن خلف ہے. آلِ یاسرؓ پر جو قیامت ڈھائی جا رہی ہے اس کا ذمہ دار اس ظالمانہ عمل کا کمانے والا ابوجہل ہے لیکن فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے‘ آزمائش اس کی جانب سے ہے‘ گو اس کی یہ آزمائش ابوجہل کے ہاتھوں اور اُمیہ بن خلف ہی کے ذریعے سے اہل ایمان کو پہنچ رہی ہے. اس اعتبار سے فتنے کی یہ دونوں نسبتیں بیک وقت درست ہیں.

اس آیت میں ان کم ہمت لوگوں کا ذکر ہے کہ جو لوگوں کی طرف سے ڈالی ہوئی آزمائش اور تکلیف سے ایسے گھبرا اٹھتے ہیں جیسے کہ اللہ کے عذاب سے گھبرانا چاہئے. ان تھڑدلے لوگوں کی سیرت کا ایک دوسرا رُخ اگلے الفاظ میں واضح کیا گیا:

وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ 
’’اور اگر تمہارے ربّ کی طرف سے کوئی مدد آ جائے تو یہ ضرور کہیں گے کہ ہم یقینا تمہارے ساتھ تھے.‘‘

کہ آزمائش کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹتے ہیں‘ لیکن اگر کہیں کوئی فتح نصیب ہو جائے‘ اللہ کی مدد آ جائے‘ کوئی مال غنیمت ہاتھ لگ جائے تو وہ پیش پیش ہوں گے اور کہیں گے کہ آخر ہم بھی تمہارے ساتھ تھے‘ ہم بھی ان ثمرات سے متمتع ہونے کا حق رکھتے ہیں‘ ہمیں 
بھی اس مال غنیمت میں سے پورا پورا حصّہ ملنا چاہئے. یہ ایک کردار ہے جو کسی ایک معیّن دَور سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر انقلابی تحریک کے ساتھ وابستہ ہونے والوں میں یہ کردار بھی ہوتا ہے.