اب اگلی آیت پر اپنی توجہ مرکوز کیجئے! مشرکین کے اس گھناؤ نے کردار پر اللہ کا غضب بہت نمایاں ہے :
وَ لَیَحۡمِلُنَّ اَثۡقَالَہُمۡ وَ اَثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِہِمۡ ۫
’’یہ لوگ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ‘ اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور کچھ بوجھ بھی (انہیں اٹھانے ہوں گے)‘‘
نوجوانوں کو فکری طور پر داغ دار کرنے اور گمراہ کرنے کی یہ کوشش‘ ان کو غلط راستے پر ڈالنے کی یہ سعی یقینا ان کے اپنے گناہوں کے بوجھ میں اضافے کا باعث بنے گی. اس سے ان کی ذمہ داری بلاشبہ بڑھ رہی ہے. لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ نوجوان جو اِن کے فریب میں آ کر اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں اپنی ذمہ داری سے دستکش ہو سکیں گے اور باز پُرس سے بچ جائیں گے.نہیں‘ ان کی ذمہ داری میں ہرگز کمی نہیں آئے گی. انہیں اپنے فیصلے کی پوری ذمہ داری قبول کرنی پڑے گی. یہ دلیل کہ کسی نے مجھے اس گمراہی کے راستے پر ڈالا‘ اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی. ہر شخص کو جو کچھ دیا گیا ہے‘ جو جسمانی صلاحیتیں اور ذہن و فکر کی قو ّتیں عطا کی گئی ہیں‘ ان کی بنیاد پر وہ خود انفرادی حیثیت میں مسئول ہے. ہاں وہ لوگ جو دوسرو ں کو گمراہ کرنے اور انہیں غلط راستے پر ڈالنے کی سعی کر رہے ہیں‘ اپنے اس طرزِ عمل سے اپنے بوجھ میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں‘ انہیں اپنی خطاؤں کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا ہو گا جو ان کی باتوں میں آ کر گمراہی کا شکار ہو گئے تھے‘ یہ اضافی بوجھ بھی ان کے سروں پر ہو گا! یہ آیت مبارکہ ان الفاظ پر ختم ہو رہی ہے :
وَ لَیُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳﴾
’’اور لازماً ان سے باز پُرس ہو کر رہے گی قیامت کے دن اس افترا کے بارے میں جو وہ کرتے ہیں.‘‘
جو جھوٹ یہ گھڑ رہے تھے‘ جو افترا پردازیاں کر رہے تھے اور جو غلط دعوے کر رہے تھے کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھائیں گے‘ اس سب کے بارے میں انہیں جواب دہی کرنی پڑے گی. ان سے اس معاملے میں باز پُرس ہو کر رہے گی!